انتخابات کے التوا کی قرارداد پر اُٹھتے سوالات
نگراں حکومت،الیکشن کمیشن،مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے انتخابات کے التوا سے متعلق سینیٹ سے منظور ہونے والی قرارداد کو الیکشن پر حملہ قراردیتے ہوئے مستردکردیاہے ۔ پیپلز پارٹی نے انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کی حمایت کرنے پر اپنے سینیٹر بہرہ مند تنگی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات دن کے اندر جواب طلب کرلیاجبکہ پی ٹی آئی نے بھی جنرل الیکشن کے التوا کی قرارداد سینیٹ سے منظور ہونے پر سینیٹر گردیپ سنگھ کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیاہے۔ ادھر لیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سینیٹ قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں،عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے،سپریم کورٹ کے احکامات کے علاوہ کوئی احکامات الیکشن شیڈول پر اثر انداز نہیں ہوسکتے،سینیٹ کی قرارداد کا الیکشن شیڈول پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ایک روز قبل ہی سینیٹ نے ملک میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی تھی ۔ قرارداد خیبرپختونخوا سے آزاد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی اور موقف اختیار کیاتھا کہ ملک کے بعض علاقوں میں شدید سردی کا موسم ہے، اس وجہ سے ان علاقوں کی الیکشن کے عمل میں شرکت مشکل ہے۔ ساتھ ہی قرارداد میں مطالبہ کیاگیا تھا کہ الیکشن کے انعقاد کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا جائے، چھوٹے صوبوں میں بالخصوص الیکشن مہم کو چلانے کے لئے مساوی حق دیا جائے اور الیکشن کمیشن شیڈول معطل کر کے سازگار ماحول کے بعد شیڈول جاری کرے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں صورتحال خراب ہے، جے یو آئی ف کے ارکان اور محسن داوڑ پر بھی حملہ ہوا، ایمل ولی خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو بھی تھریٹ ملے ہیں۔ الیکشن ریلی کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تھریٹ الرٹ ہیں، کووڈ کا معاملہ بھی اس وقت ہے، 8 فروری کے الیکشن شیڈول کو ملتوی کیا جائے۔سینیٹ سے منظور ہونے والی اِس قرارداد کی ملک کی تینوں بڑی جماعتوں نے شدید مذمت کی ہے یہی نہیں بیشتر چھوٹی جماعتوں نے بھی سینیٹ سے منظور ہونے والی قرارداد کی شدید مذمت کرتے ہوئے آٹھ فروری کوہی ملک میں انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ قومی ذرائع ابلاغ سے کچھ دلچسپ اور حیران کن باتیں سامنے آرہی ہیں جیسے عام انتخابات موخر کرنے کی قرارداد پر 97 ارکان میں سے 14 ارکان نے رائے شماری میں حصہ لیا اور چیئرمین سینیٹ نے نماز جمعہ سے پہلے ہی ایسے انداز میں موخر کر دیا جو بہت شاذ ونادر ہوتا ہے۔ انہوں نے اضافی ایجنڈے کی بڑے خفیہ طریقے سے اجازت دی جس کے ذریعے متنازع قرارداد ہائوس کے سامنے لانے کی منظوری دی گئی۔اسی طرح قرارداد کی منظوری پر اب کئی طرح کے سوالات اُٹھ رہے ہیں جیسے اس قرارداد کے پیچھے کون ہے۔عام انتخابات کے التواء کے مقاصد کیا ہیں۔ کیا الیکشن کا التواء چاہنے والی قوتوں کو کامیابی مل سکے گی یا پھر سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق الیکشن 8فروری کو پتھر پر لکیر ہیں اور اس قرارداد کی قانونی حیثیت کچھ نہیں لیکن لوگوں کے اعتماد اور یقین کو دھچکا لگا۔ بہرکیف اس قرارداد نے شکوک و شبہات کو اس لئے جنم دیا ہے کہ یہ عجلت اور پراسرار انداز سے پیش کی گئی کیونکہ یہ ریگولر ایجنڈے میں نہیں تھی۔ قرارداد بھی آزاد رکن سینیٹر دلاور خان نے پیش کی۔ رولز کے تحت اگر کورم کی نشاندہی نہ کی جائے تو بھلے ممبران کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو اسے ایوان کی قرارداد ہی کہا جائے گا۔ قرارداد کی حمایت صرف بارہ ممبران نے کی لیکن یہ حیران کن بات ہے کہ مخالف ممبران نے کورم کی نشاندہی کیوں نہیں کی حالانکہ جوارکان اب ذرائع ابلاغ اوراپنی پارٹیوں کے نوٹس ملنے پر صفائیاں پیش کررہے ہیں وہ اُس وقت قرارداد پر کارروائی کے دوران خاموش تھے، البتہ یہ امکان تھا کہ پیر کو الیکشن کے 8فروری کو انعقاد کے حق میں بھی قرارداد آنے والی ہے لہٰذا چیئرمین سینیٹ نے اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردیا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے الیکشن کے بروقت انعقاد کی قرارداد جمع کرادی ہے۔ بہرکیف سینیٹ کی قرارداد سے الیکشن ملتوی ہوں یا نہ ہوں، اس قرارداد نے الیکشن کے انعقاد کے بارے میں لوگوں کے اعتماد اور یقین کو ضرور دھچکا لگایا ہے اور انتخابات سے متعلق کئی ماہ سے ہونے والی چہ مگوئیوں کودوبارہ تقویت ملی ہے، حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی خصوصی توجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی آٹھ فروری کی تاریخ پر رضا مند ہوئے، الیکشن شیڈول جاری ہوا اور اب کاغذات نامزدگی بھی آخری مراحل میں ہیں۔ گذارش کا خلاصہ یہی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور ملک و قوم کو درپیش چیلنجز ختم کرنے کے لئے انتخابات کا انعقاد ہونے دیاجائے یہی سبھی کے مفاد میں ہے۔