ایڈیٹوریل

سینیٹ :عام انتخابات ملتوی کرنیکی قرار دادمنظور

ملک میں عام انتخابات کے لئے اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ آٹھ فروری کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان اورالیکشن کمیشن شیڈول جاری کرچکا ہے، ایک طرف مستردکاغذات نامزدگی کی درخواستیں زیر سماعت ہیں تو دوسری طرف سیاسی پارٹیاں بہتر سے بہتر اُمیدوار میدان میں اُتارنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھی ہیں بلکہ پیپلز پارٹی سمیت کئی ایک سیاسی پارٹیوں نے تو غیر اعلانیہ انتخابی جلسوں کا بھی آغاز کرچکا ہے مگر گزشتہ روز سینیٹ نے ملک میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی ہے۔ قرارداد خیبرپختونخوا سے آزاد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی اور قرار داد کے ذریعے موقف اختیار کیاگیا کہ ملک کے بعض علاقوں میں شدید سردی کا موسم ہے، اس وجہ سے ان علاقوں کی الیکشن کے عمل میں شرکت مشکل ہے۔ ساتھ ہی قرارداد میں مطالبہ کیاگیا ہے کہ الیکشن کے انعقاد کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا جائے، چھوٹے صوبوں میں بالخصوص الیکشن مہم کو چلانے کے لئے مساوی حق دیا جائے اور الیکشن کمیشن شیڈول معطل کر کے سازگار ماحول کے بعد شیڈول جاری کرے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں صورتحال خراب ہے، جے یو آئی ف کے ارکان اور محسن داوڑ پر بھی حملہ ہوا، ایمل ولی خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو بھی تھریٹ ملے ہیں۔ الیکشن ریلی کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تھریٹ الرٹ ہیں، کووڈ کا معاملہ بھی اس وقت ہے، 8 فروری کے الیکشن شیڈول کو ملتوی کیا جائے، الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرانے پر عمل کرے۔ نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور ن لیگ کے افنان اللہ نے قرار داد کی مخالفت کی جبکہ پی پی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی اور پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ نے قرارداد پر خاموشی اختیار کی۔ قرارداد کے وقت سینیٹ اجلاس میں سینیٹر دلاور، بہرہ مند تنگی، افنان اللہ، منظور کاکڑ، گردیپ سنگھ، عبدالقادر، ثمینہ ممتاز، ہلال الرحمان، نصیب اللہ، کامل علی آغا، کہدہ بابر، ثنا جمالی، پرنس احمد عمرزئی، احمد عمر سمیت14 ارکان موجود تھے۔ سینیٹ نے سینیٹر دلاور خان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ ملک میں آٹھ فروری کوعام انتخابات کے انعقاد سے متعلق پہلے ہی مختلف جواز دلائل کے ساتھ پیش کرکے شکوک و شبہات پیدا کئے جارہے تھےاوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، باوجود اِس کے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے ہی احکامات پرچیف الیکشن کمشنر صدرمملکت سے جاکرملے اور عام انتخابات کے لئےآٹھ فروری کی تاریخ پر متفق ہوکر اعلان کیا اور آج عدالت عظمیٰ ہو یاعدالت عالیہ یا پھر ماتحت عدالتیں، سب سےزیادہ زیر سماعت مقدمات ہی انتخابی عمل یعنی عذرداریوں سے متعلق ہیں ، پھر سیاست اور انتخابی معرکے میں دلچسپی رکھنے والی شخصیات اور سیاسی کارکن بھی آٹھ فروری کے لئے کمر کس چکے ہیں، ماسوائے مولانا فضل الرحمن کے، سبھی جماعتیں آٹھ فروری کوانتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں مگر اِسی دوران سینیٹر دلاور خان نےعام انتخابات موخر کرنےکی قرارداد پیش کرکے سبھی سیاسی جماعتوں اور عوام کوحیران کردیا ہے مزید یہ کہ چودہ سینیٹرز نے عدالت عظمیٰ، صدر پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، وطن عزیز کی سیاسی قیادت کے برعکس فیصلہ سناکر بلاشبہ سبھی کی توجہ حاصل کرلی ہے، عین ممکن ہے کہ اِن کی نظرسے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کااعلامیہ نہ گزرا ہو، جس میں پاک فوج کی جانب سےانتخابی عمل کی ادائیگی کے لئے پاک فوج کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے اور شاید وہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کی بھی عام انتخابات کے انعقاد کے لئے خصوصی توجہ اور اِس کے نتیجے کے طور پر آٹھ فروری کی تاریخ کا تعین ہونا بھی اُن کے علم میں نہ ہو۔ بہرکیف سینیٹ پاکستان میں منظور ہونے والی قرارداد پر سیاسی حلقے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور کیسے ردعمل کااظہارکرتے ہیں بلاشبہ فوراً اِس پر شدید ردعمل سامنے آئے گا۔ عین ممکن ہے کہ ایک بار پھر اعلیٰ عدلیہ تک یہ معاملہ جائے لیکن جوبھی فیصلہ ہو وہ متفقہ ہونا چاہیے اور اِس میں بہرصورت ملک و قوم کا مفاد مقدم رکھا جانا چاہیے۔ کیونکہ ہم پہلے ہی آئینی معاملات کو نظریہ ضرورت کی نذر کرنے کی کئی مثالیں قائم کرچکے ہیںاور کسی بھی جمہوریہ میں ایسے مظاہر اول تو دیکھنےکوملتےنہیں یا پھراتنی کثرت سے نہیں ۔ ہم سمجھتےہیںکہ وطن عزیز کو درپیش داخلی مسائل کا واحداور فوری حل یہی ہےکہ ملک میں فوری اور آزادانہ انتخابات کرائے جائیں، تاکہ نومنتخب حکومت داخلی مسائل کےساتھ ساتھ خارجی مسائل سے نمٹنے کے لئے موجود ہو، وگرنہ یہی عدم استحکام اور کھینچاتانی چلتی رہےگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button