آج کے کالمشرافت علی عامر

تخت لاہور پہ غور

شرافت علی عامر

تخت لاہورپاکستانی سیاست میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند تصور کیا جاتا ہے، اسے دیبل شہر کے داخلی دروازے پر لگے جھنڈے سے تشبیہ دی جائے تو بے جا نہ ہو گا جس کے بارے کہا جاتا تھا کہ جب تک یہ جھنڈا اپنی جگہ لہرا رہا ہے دشمن اس شہر پر قبضہ نہیں کر سکتا کوئی اس شہر کو فتح نہیں کر سکتا۔ تخت لاہور بھی ملکی سیاست میں علامتی طور پر ایسا ہی درجہ اختیار کر چکا ہے کیونکہ لاہورجو گنجان آباد صوبہ پنجاب کا دارالخلافہ ہے پورے صوبے کی سیاست کا محور و مرکز تو ہے ہی لیکن ملکی سیاست پر بھی اس قوی الجثہ صوبے کے بلواسطہ بھی اور بلا واسطہ بھی اثرات رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لاہور کی سیاست اسلام آباد کی سیاست کا رخ متعین کرتی ہے۔ دو ہزار اٹھارکے انتخابات کے نتائج بڑے ہنگامہ خیز رہے جس کے بہت سے غیر متوقع اور حیران کن نتائج پوری قوم کو عموما اور ملکی سیاست کو خصوصا بھگتنا پڑے۔ ان انتخابات کے بعد جو حکومت بر سر اقتدار آئی اس نے کئی سیاسی ایڈونچر کئے، شومئی قسمت کہ اس حکومت کو پہلی اننگز کے ابتدائی اوورز میں ہی کرونا جیسی وبا کا سامنا کرنا پڑ گیا، اس وبا سے نبرد آزما ہوتے ہوتے کئی بار لگا کہ ان کی اپنی سیاست ہی دریا برد ہونے جا رہی ہے لیکن ڈوبتے سنبھلتے جیسے تیسے اس حکومت نے بمشکل ساڑھے تین سال مکمل کئے کہ آئین کے لوک ڈوئس سسٹم نے اس حکومت کو میچ سے ہی باہر کر دیا۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار آئینی طریقے سے منتخب حکومت کو ایوان سے باہر جانے کا رستہ دکھایا گیا اور اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھے ہوئے آ کر اقتدار کی نشستوں پر برا جمان ہو گئے۔ ان سب ہنگامہ خیزیوں کی ایک بڑی وجہ تخت لاہور کی پشت پناہی کا نہ ہونا بھی تھا۔ دو ہزار اٹھارہ کی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو اس نے اپنی دلی کو مزید دور کر لیا یعنی پنجاب پرایسی عاجز اور نحیف الارادہ شخصیت کو بطور وزیر اعلیٰ مسند نشین کرایا جو اس پہلے شاید کہیں بوریا نشین بھی نہیں تھی۔ ایسے بوریا نشین کو جب بلا حیل و حجت اقتدار اعلیٰ کی مسند نشینی نعمت غیر مترقبہ بن کر ملی تو وہ گویا اس کے تصورات سے بڑھ کرتھی۔ اسی لئے تخت لاہور پر ایسے تخت نشین ہوا گیا جسے شاید انہیں اس سے قبل ایسی تخت نشینی کی نہ عادت تھی اور نہ ہی کوئی تجربہ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وفاقی حکومت کے لئے سب سے بڑے صوبے کی حکومت کا یہ درہ شاید خالی ہو گیا اور وفاقی حکومت کا امیر سلطنت میمنہ میسرہ دیکھتا رہا قلب لشکر سنبھالتا رہا جبکہ اس کی پشت ہر قسم کی پناہ سے خالی ہو گئی اور دشمن کو گھوم کر ضرب کاری لگانے کے لئے خوب موقع میسر رہا۔
وسیم اکرم پلس کے بوسٹر لگا کر جس اوسط سے بھی کم سپیڈ والے بائولر سے کپتان اٹیک کرانے کی کوشش کرتا رہا اس کی پہلی سیاسی غلطی یہی تھی کہ اس نے اپنے زعم اور رعونت میں جو حقیقی وسیم اکرم پلس یعنی عبدالعلیم خان کو بلا ضرورت بلا جواز اٹھا کر بائونڈری کے باہر کھڑا کر دیا جہاں اس کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنے کی کوئی صورت ہی نہ رہی حالانکہ وہ اس وقت کی پنجاب کی کابینہ میں تخت لاہور پر مسند نشین ہونے کے نہ صرف سب سے زیادہ اہل تھے بلکہ عوام کی توقع اور پر زور فرمائش بھی بن چکے تھے۔ اس وقت قریباً ہرکوئی یہی پیشن گوئی کر رہا تھا کہ اس حکومت کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو گی کہ وفاقی حکومت کی کمان کپتان کے ہاتھ ہو گی اور پنجاب میں عبدالعلیم خان بطور وزیر اعلیٰ معاملات چلا رہے ہوں گے تو ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر نکل پڑے گا جس کا ثبوت وہ یہ دیتے تھے کہ اہل لاہور نے عبدالعلیم خان کوبطور منتخب نمائندے بھی اور بغیر منتخب ہوئے بھی وسیع پیمانے پر رفاعی منصوبے چلاتے اور خلق خدا کی خدمت کرتے دیکھا ہے۔ یقیناً اگر عوام کی توقع کے عین مطابق عبدالعلیم خان پنجاب کی باگ ڈور سنبھالتے تو صوبے کے ساتھ ساتھ وفاق بھی مضبوط ہوتا اور وسیم اکرم کو پلس کے بوسٹر لگنے کی بجائے ترقی کو بوسٹر لگتے۔ خیر یہ عوام کی شومی اعمال اور صوبے کی شومئی تقدیر کہ ایسا نہ ہو سکا اورسردار عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر مسند نشین ہوئے جن کے بارے عام طور پر یہی کہا جاتا تھا کہ یہ گھر سے کسی یونین کونسل کے آفس جانے کے لئے نکلتے ہیں لیکن پتہ نہیں کون انہیں ہر روز وزیر اعلیٰ ہائوس چھوڑ جاتا ہے اور انہیں مجبوراً ہر روز وزارت اعلیٰ کے امور دیکھنا پڑتے ہیں۔
دوہزار اٹھارہ اور دو ہزار چوبیس کے انتخابی سیاست میں ایک بڑا فرق استحکام پاکستان پارٹی کا قیام ہے۔ عبدالعلیم خان اس پارٹی کو جہانگیر خان ترین کی چیئرمین شپ میں بطور صدر چلا رہے ہیں جنہوں نے اپنا پہلا testimonial اپنے پارٹی منشور کی صورت میں عوام کے سامنے رکھا ہے۔ اس منشور میں تین سو یونٹ تک بجلی فری دینے اور موٹر سائیکل سواروں کو آدھی قیمت پر پٹرول فراہم کرنے جیسے منصوبے ایسے ہیں جو اس سے قبل کسی پارٹی کے منشور میں نہیں دیکھے گئے جبکہ ہر یونین کونسل پر سٹیٹ آف دی آرٹ ڈسپنسریوں کا قیام واٹر فلٹریشن پلانٹس سولر پینل وغیرہ سمیت ایسے منصوبے اس منشور کا حصہ ہیں جو حقیقتاً عوام کی فلاح اور خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام اس منشور پر اس لئے اعتبار بھی کر رہی ہے کہ یہ منشور نما وعدے عبدالعلیم خان ان کے ساتھ کر رہا ہے جو دہائیوں سے ان کے ساتھ خیراور خیرات کے معاملات نبھا رہا ہے۔ یہ وعدے اس لئے بھی سچ ہوتے نظر آ رہے کہ عبدالعلیم خان فاونڈیشن قریباً پنجاب بھر میں فری ڈسپنسریوں اور واٹر فلٹریشن پلانٹس کے جال بچھا چکا ہے جبکہ دوسری طرف ماضی کی پنجاب حکومت ایسے ہی واٹر فلٹریشن پلانٹ کے کیس میں مبینہ طور پر داماد سمیت انکوائری کا سامنا کر چکے ہیں۔ خیر بلا شبہ دو ہزار چوبیس کے انتخابات میں یہ ایک بڑا اضافہ ہو گا، نیز پچھلے عام انتخابات اور امسال ہونے جا رہے انتخابات میں ایک اور فرق بلاول بھٹو کا تخت لاہورکی سیاست میں طالع آزما ہونا بھی شامل ہے۔ بلاول بھٹو ایک طرف تمام پارٹیوں کو للکار رہے ہیں تودوسری جانب وہ چاہتے ہیں کہ حلقہ این اے 127 جہاں سے وہ امیدوار ہیں اس میں بالخصوص مسلم لیگ ن اپنا کوئی امیدوار مقابلے پر نہ اتارے، جبکہ شہباز شریف کراچی کے جس حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں وہاں پروہ بھی پیپلز پارٹی سے کچھ ایسی ہی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ سب تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ وینچر کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری اپنے ایک بیان میں استحکام پاکستان پارٹی کے منشور کو باآواز بلند سراہ چکے ہیں جو اس پارٹی کی اخلاقی فتح شمار کی جا رہی ہے۔
جب آئی پی پی کو شاہین کا انتخابی نشان الاٹ ہوا تو اس سے اگلے دن اخبارات میں آئی پی پی لاہور ڈویژن کے جنرل سیکرٹری میاں خالد محمود کا ایک بیان شائع ہوا تھا کہ انشاءاللہ تخت لاہور جیت کر پارٹی کو تحفے میں دیں گے۔ کچھ دن بعد اتفاقاً ان سے ملاقات ہوئی اور ان سے پوچھا گیا کہ یہ بیان اپنی حیثیت میں بہت بڑا نہیں؟ تو انہوں نے اس کی وضاحت کچھ یوں کی کہ ضروری نہیں کہ کسی دراز قامت کے برابر ہونے کے لئے ایڑیاں اٹھا کر ہی قد اونچا کیا جائے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ درواز قامت خود ہی زانوں پہ آ جاتا ہے یا اس کے اپنے پائوں ہی زمین میں ایسے دھنس جاتے ہیں کہ وہ آپ سے بھی کوتاہ قامت ہو جاتا ہے۔ بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ماضی میں تخت لاہور پر بیٹھنے والے اپنی ادائوں کی وجہ سے سرتفاخر بلند کر کے کھڑے ہونے کی بجائے دوزانو گرے نظر آ رہے اور عوام میں غیر مقبول فیصلوں کی وجہ سے ان کے پائوں مہنگائی اور بے روز گاری کی دلدل میں ایسے دھنس چکے ہیں کہ ان کی دراز قامتی محض ماضی کا حوالہ بن کر رہ گئی ہے۔ دو ہزار چوبیس کے انتخابات میں بلاول بھٹو کے لاہور سے امیدوار ہونے اور عبدالعلیم خان کے اپنی پارٹی کے صدر ہونے کے ناطے اس بار تخت لاہور کے امیدواروں کی تعداد اور ان کا تعارف مختلف ہو چکا ہے۔
بلاول کے لئے لاہور میں قدم جمانا قدرے سے زیادہ خاصا مشکل ہے جبکہ عبدالعلیم خان کے پاس ان کے دیرینہ دوست اور سیاسی دست راست شعیب صدیقی کی صورت میں وہ جنگجو موجود ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عوام مزاج آدمی ہے۔ حلقے میں عوامی ضروریات کا مداوا کرنا، لوگوں کی دلجوئی کرنا، برادری کی سیاست کا ادراک رکھنا اور جوڑ توڑ کی سیاست کو گراس روٹ لیول پر سمجھنا ان کا خاصہ ہے جس کا نتیجہ یقیناً انتخابی نتیجے پر براہ راست اور مثبت اثر انداز ہوگا۔ ہوا چل رہی ہے کہ شعیب صدیقی نے اپنی ٹیم کے ہمراہ انتخابی حلقے سے فتح مند کرانے کے لئے کمر کس لی ہے اور حلقہ کو تاریخی اعداد و شمار سے جیتنے کے لئے صف بندی بھی کر چکے ہیں جبکہ بلاول بھٹو لاہور میں بطور امیدوار ایسے کسی بھی ’’رفیق‘‘ سے محروم ہیں جو ان کے لئے قدرے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ اتخابات میں قریباً تینتس دن باقی ہیں، یہ انتخابات پچھلے عام انتخابات سے کس طرح اور کس قدر مختلف ہو سکتے ہیں اس میں ان جزئیات کا عمل دخل بنیادی اہمیت کا حامل ہے لیکن دعا ہے کہ قوم کو اس بار انتخابی نتائج کے بعد مزید نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button