آج کے کالمسہیل بشیر منج

آ ئیں کچھ نیا سوچتے ہیں

سہیل بشیرمنج

 

سال 2016 میں کچھ دوستوں کے ساتھ سری لنکا کاروباری ٹور پر گیا۔ یہ ہماری نسبت بہت غریب ملک ہے ۔میری شروع سے عادت رہی ہے کہ جب میں کسی ملک میں جاتا ہوں تو کاروباری مواقع تلاش کرنے کے ساتھ ان کے کاروبار کے انداز ، رہن سہن، رسم و رواج، عادات ،اخلاقیات ،قوت برداشت، صفائی ستھرائی ،ٹرانسپورٹ ،مہنگائی، نظام تعلیم، نظام صحت، قانون اور بہت سی دوسری چیزوں کو بھی سٹڈی کرتا ہوں۔ ہم نے لاہور سے بذریعہ ایئر لنکا اپنا سفر شروع کیا اور میری سٹڈی وہیں سے شروع ہو گئی ،ایئرلنکا چونکہ ایک بجٹ ایئر لائن ہے وہ ٹکٹ تو سستی دیتے ہیں لیکن دوسری ایئر لائنز کی طرح سہولتیں نہیں دیتے جس طرح میں نے مختلف اوقات میں ایمرٹس، قطر ایئر ویز ، فلائی دبئی، اتحاد ،تھائی ایر ویز، ملنڈو ایر ویز، پی آئی اے، ایئر بلیو، شاہین اور اس کے ساتھ ایئر ایشیا میں بھی سفر کیا ہے، لیکن سوائے ایئرایشیا کے سب کے سب ایئر لنکا سے بہت مہنگی ہیں۔ اس لیے ان میں سہولتیں بھی زیادہ دی جاتی ہیں چونکہ ہم پاکستانی قابل فخر قوم ہیں تو اسی جہاز میں سفر کرنے والے سیالکوٹ کے عظیم سپوتوں نے دوسری بار کولڈ ڈرنک سرو نہ کرنے پر ایئر ہوسٹس کو گالیوں سے نوازا اور وہ خاموشی اور صبر کے ساتھ ان کی بدتمیزی برداشت کرتی رہی۔ یہاں پر معاملہ میرے پاکستان کی عزت و وقار کا تھا تو ہم چاروں دوست سیٹ سے اٹھے اور انہیں جا کر بتایا کہ خاموشی سے بیٹھ جائیں ورنہ یہ لوگ آ پ کو ایئرپورٹ سے ہی ڈی پورٹ کر دیں گے، تب جا کر بات ان کی سمجھ میں آئی، جیسے ہی ہم نے کولمبو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کیا تو ہر لحاظ سے ہمارے لاہور ایئرپورٹ سے خوبصورت صاف ستھرا ایئرپورٹ اور چہروں پر مسکراہٹیں سجائے اس کے عملے نے ہمیں خوش آمدید کہا ۔امیگریشن کاؤنٹر پر ہمیں مفت ویزا، سری لنکا کا نقشہ، ٹیکسی سروس کے کرایہ جات اور ایک موبائل سم کارڈ تحفے میں دیا گیا۔ اس وقت رات بہت ہو چکی تھی ہم نے کولمبو کی بجائے پچاس کلومیٹر دور نگامبو میں سٹے کرنے کا پروگرام بنایا اگلی صبح ناشتے کے بعد سٹی ٹور کے لئے روانہ ہوئے شہر کی سڑکیں، گلیاں، راستے، چوک چوراہے، فٹ پاتھ اتنے صاف ستھرے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے بالکل نئے تعمیر کیے گئے ہوں، بسیں بہت پرانی اور خستہ حال لیکن شہری قطار میں سوار ہونے کے لئے کھڑے تھے لوگ شکلوں، کپڑوں اورجوتوں سے غریب لگ رہے تھے لیکن اپنے سٹے کے دوران کسی بھکاری کو نہیں دیکھا جس سے معلوم ہو رہا تھا کہ یہ لوگ غریب ہونے کے باوجود بھی خوددار اور صبر والے ہیں ۔شرح تعلیم بانوے فیصد جو ان کے شہریوں میں نظر بھی آ رہی تھی ۔
خیر اب آ تے ہیں وطن عزیز کی طرف اور اس کے نظام صفائی کی طرف ہمارا ہر شہر، گاؤں، قصبہ سارا ریجن صوبہ بلکہ سارا ملک ہی گندگی سے بھرا ہوا ہے۔ سرکاری اداروں کی ہلکی پھلکی کوشش کے باوجود۔ ہم نہ تو اپنے باطن کو اور نہ ہی اپنے شہروں کو صاف کر سکے، نہ ہی ہم نے کوشش کی کیوں نہ اس سال کو وطن عزیز کی صفائی کے نام کر دیں ،موجودہ صورتحال میں بجٹ کے اعتبار سے ایل ڈبلیو ایم سی اور ایم سی ایل اور ٹاؤن کمیٹیوں جیسے منظم اداروں کو بھی ورکرز کی کمی کا سامنا ہے ۔ہم ہر چیز ترقی یافتہ ممالک کی طرح چاہتے ہیں لیکن اس میں اپنا حصہ ڈالنا نہیں چاہتے۔ میرے بہت سے صحافی دوست صفائی کے معاملے میں بڑے بڑے ملکوں سے موازنہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے ۔
ہاں ہمارا ملک بھی ایسا ہو سکتا ہے اس کی مثال آ پ ہمارے شہر میں موجود پرائیویٹ سوسائٹیوں کو دیکھ لیں وہ ہر گھر سے پلاٹ کے سائز کے مطابق ریپیئر اینڈ مینٹیننس فنڈ جمع کرتے ہیں جس سے اس سوسائٹی کی صفائی، سٹریٹ لائٹس، سکیورٹی، امام مسجد، پارکس کی تزئین و آرائش کے اخراجات کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ بحریہ ٹاؤن میں ہر گھر سے دو ہزار سے لے کر دس ہزار روپے تک مینٹیننس چارجز وصول کیے جاتے ہیں اور انہی پیسوں سے وہ اپنے رہائشیوں کو سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ ہم اتنا تو نہیں کر سکتے لیکن اگر تھوڑا تھوڑا فنڈ بھی جمع کر لیں تو ہمارے گاؤں صاف ستھرے گلیاں روشن ہمیں بھی سکیورٹی گارڈ میسر آ سکتے ہیں۔ ہماری مساجد میں بھی عالم دین رکھے جا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے گاؤں ،شہر علاقے کے بارے میں کچھ نیا سوچنا ہوگا۔ اس تجویز کو قابل عمل بنانے کے لئے اپنے گاؤں کی مثال دیتا ہوں ۔اس وقت ہمارے گاؤں میں چھوٹے بڑے کل ملا کر ایک ہزار کے قریب گھر ہیں۔ میرے گاؤں کے ساتھ سمال انڈسٹریل اسٹیٹ ہے، جس میں قریباً تین سو فیکٹریاں ہیں ۔اس کے ساتھ ایک سو دکانیں، دس کارخانے چار پرائیویٹ سکول ہیں اگر ہر گھر سے تین سو، فیکٹری سےدو ہزار ،کارخانہ سے پانچ سو ،دکان سے پانچ سو، پرائیویٹ سکولوں سے ایک ہزار کے حساب سے فنڈ جمع کیے جائیں تو میرے گاؤں سے قریباً پندرہ لاکھ ماہانہ جمع ہوتے ہیں۔ اگر ایک ورکر کی تنخواہ بیس ہزار بھی رکھ دی جائے اور بیس ورکر رکھ لئے جائیں تو ان کی تنخواہ چا ر لاکھ ،دس سکیورٹی گارڈ صرف رات کے لئے بیس ہزار فی کس تنخواہ دو لاکھ، پانچ امام مسجد تنخواہ چالیس ہزار کے حساب سے دو لاکھ ،سٹریٹ لائٹس کا بل دو لاکھ اور کل خرچہ دس لاکھ ماہانہ بنتا ہے اور باقی بچی رقم کو گاؤں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیا جائے تو بہت جلد ہمارے گاؤں دیہات شہر گلیاں اور محلے صاف ستھرے نظر آنے لگیں گے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرے گا کون۔ ہمارے علاقے میں زمینیں فروخت ہو چکی ہیں۔ ہمارے نمبردار اس وقت ویلے ہو چکے ہیں اس کام کے لئے سب سے بہتر شخصیت نمبردار ہے۔ فنڈز جمع کرنے کے لئے واپڈا کی مدد لی جائے ویسے بھی ہم ہر بل پر پندرہ قسم کے مختلف ٹیکس بلا چوں چراں ادا کر رہے ہیں تو تین سو اور سہی واپڈا کو اس کلیکشن کے عوض دس روپے فی بل ادا کر دیے جائیں اور ان سے جمع شدہ رقم نمبردار وصول کر کے گاؤں پر خرچ کرے۔ اب ہمارے نمبردار صاحب چونکہ مصروف شخصیت ہیں تو وہ بیس ہزار روپے پر کوئی پارٹ ٹائم منشی رکھ لیں اور یہ کام اس سے کروا لیں اور اس کی نگرانی خود کر لیں ۔
بجلی کے بلوں کے علاوہ فنڈز جمع کرنے کا ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ۔اس سال اگر ہم ایسا کوئی نظام بنانے میں کامیاب ہو گئے تو مجھے یقین ہے کہ چند ماہ کی محنت کے بعد شاید ہم سری لنکا کے برابر صاف ستھرے ہو جائیں ۔ہمارے گاؤں کے نوجوان بہت پرعزم اور با ہمت ہیں وہ اپنے گاؤں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور وہ یقیناً کر سکتے ہیں یہ یوتھ ہمارا فخر ہیں ان میں کچھ کر جانے کا حوصلہ بھی ہے اور ہمت بھی لیکن ابھی تک انہیں کوئی پائیدار پلیٹ فارم میسر نہیں آ سکا۔ یقیناً اس کام میں وہ نمبردار صاحب کا ساتھ دیں گے کوئی بھی ترتیب بنا کر ہمیں یہ کام کرنا چاہیے لیکن اس سال کو ملک و قوم کی صفائی کے نام کر دیا جائے تو بہت بہتر ہوگا ہمیں اپنے اپنے گاؤں شہر علاقے کے بارے میں کچھ نیا سوچنا ہوگا اور اس کو قابل عمل بنانے کے لئے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا تاکہ ہم زندہ اور پائندہ قوم بن سکیں۔

جواب دیں

Back to top button