تاحیات نااہلی کیس کی سماعت
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن لڑنے کے لئے جو اہلیت بیان کی گئی ہے، اگر 2002ء میں قائداعظم ہوتے وہ بھی نااہل ہو جاتے، اہلیت کی کچھ شقوں کا تعلق حقائق اور کچھ کا اخلاقیات سے ہے، اچھے اخلاق کا تعین کیسے ہو گا؟، ایک مسلمان صادق وامین آخری نبی ﷺکے سوا کسی کے لئے استعمال کرہی نہیں سکتا، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کیسے اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟کیا ضیاالحق کا کردار اچھا تھا؟کیا اب نئے قانون کا اطلاق ہوگا؟ اسی کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں ہر سزا کی مدت ہے تو نااہلی تاحیات کیسے ہو سکتی ہے، سنگین غداری کے مجرم کو الیکشن لڑنے کا حق دیا گیا، فرضی اہلیت نہ ہونے پر تاحیات نااہلی ہو جاتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب غیر منتخب لوگ قوانین بنائینگے تو ایسے ہی ہوگا،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل62 ون ایف میں نااہلیت کی میعاد کا ذکرہی نہیں ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے تاحیات نااہلی پر نظرثانی کی استدعا کی۔جبکہ ایڈووکیٹ جنرلز کا کہنا تھا کہ صو بائی حکومتیں الیکشن ایکٹ 2017ءکی حامی ہیں۔بعدازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سات رکنی لاجر بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تھی جس میں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عوامی نمائندوں کی تاحیات نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں اور الیکشنز(ترمیمی) ایکٹ2023کی عوامی نمائندہ کی عوامی عہدہ سے نااہلیت کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہ ہونے سے متعلق آرٹیکل 232 میں واضح تضاد کی بناء پر پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنے سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران اس حوالے سے مختلف سوالات اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ قتل اور سنگین غداری جیسے جرائم میں پانچ سال کی نااہلیت ہے لیکن تصوراتی اخلاقیات پر ایک شخص کو تاحیات نااہل کردیا جاتا ہے۔ بلاشبہ تاحیات نااہلی کا کیس اِس کے اثرات کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے، لیکن دیکھا جانا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں برسراقتدار آنے کے بعد اپنے معاملات کو سیدھا کرنے کے لئے قانون سازی کا سہارا لے کر کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتی ہیں لیکن اُن معاملات پر قطعی توجہ نہیں دیتیں جن سے سیاسی مخالفین کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، بلاشبہ آئین میں ہر سزا کی مدت کا تعین کیا گیا ہے توپھر تاحیات نااہلی کیوں؟ اسی طرح سنگین غداری اور قتل جیسےجرائم میں بھی تاحیات نااہلی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اقتدار سنبھالنے والی جماعتوں کو کوئی بھی قانون سازی کرتے ہوئے اِس کے فائدے اور نقصان کے ساتھ ساتھ اِس کی ابجد سے بھی بخوبی آگاہ ہونا چاہیے، قانون بناتے وقت یعنی قانون سازی کے مرحلے میں اِن تمام چیزوں کومدنظر رکھناچاہیے جو نظام یا معاشرے کونفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ مگر افسوس کہ اراکین اسمبلی کا سارا زور کسی نہ کسی طریقے سے اسمبلی میں پہنچنے پر ہوتا ہے، اس کے بعد اُن کا قانون سازی میں کیا کردار ہونا چاہیے یقیناً اکثریتی اراکین اِس سے آگاہ ہی نہیں ہوتے اور اِن کا کام صرف ہاتھ اُٹھاکر اپنی جماعت کے پیش کردہ بل کی تائید تک ہی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مختصر عرصے کے بعد کوئی نہ کوئی معاملہ معزز سپریم کورٹ میں تشریح کے لئے بھیجاجاتاہے حالانکہ قانون سازی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کا ہے، اِس لئے ایسے قانون ہی نہیں بنانے چاہئیں جن کی تشریح کے لئے معزز عدالت سے رجوع کرنا پڑے۔ بہرکیف قانون سازی انتہائی واضح اور ملک وقوم کے مفادمیں ہی ہونی چاہیے، سیاست دان اگر ایک دوسرے کے لئے گڑھا کھودیں گے اور مسائل پیدا کریں گےتو ایسے ہی حالات کاانہیں خود بھی سامناکرنا پڑ سکتا ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہےکہ شخصیات اور خاندانوں کو بچانے کی بجائے ملک و قوم کوبچانے کے لئےقانون سازی کی جائے، اور اِس کی اشد ضرورت ہے۔ 1973 کا متفقہ آئین پہلےسے زیادہ کشادہ اور غیر مبہم ہونا چاہیے بجائے اس کے کہ ذاتی مفادات اور انتقامی سیاست کو بڑھانے کے لئے متفقہ آئین کاسہارا لیا جائے، لہٰذا آئین کو موم کی ناک بنانے اور شخصیت پرستی میںحد سے آگے نکل جانے سے گریزکرنا چاہیے۔