سیاسی لاڈلوں کی خاطر
ایم یوسف بھٹی
ملک کی موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال کو دیکھا جائے اور پھر آج سے 30 تا 40 سال پہلے کے حالات کا جائزہ لیں تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ہم نے ترقی کی بجائے تنزلی کی ہے۔ آج جو لوگ 50 سے 60 سال کے پیٹے میں ہیں وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پرانا پاکستان اچھا تھا ہم خود اپنے بزرگوں سے مسلسل سنتے چلے آ رہے ہیں کہ:پتر! پہلے حالات بہت اچھے تھے۔ آج کے کسی بھی 80سالہ بزرگ سے پوچھ لیں اگر وہ پاکستان کے زوال اور ابتری کے دکھ سے کچھ زیادہ ہی ستایا ہوا ہو گا تو وہ یہی کہتے پایا جائے گا کہ:انگریز کا دور اچھا تھا۔ جب مایوسی اس حالت کو پہنچ جائے کہ معاشرے کو اپنا ماضی سہانا دکھائی دے اور وہ حال میں زندہ رہنے کی بجائے ماضی میں زندہ رہنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے تو معاشرے کی اس سے زیادہ بدتر کہانی لکھنا قریباً ناممکن ہے۔
ہمارے ہاں پائی جانے والی شخصیت اور روایت پرستی کی ایک بنیادی وجہ بھی اپنے مستقبل کے بارے میں پائی جانے والی یہی مایوسی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو اور اس کی امیدیں بر نہ آ رہی ہوں تو وہ اطمینان قلب کے لئے ماضی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے کارناموں پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں اور انہیں بہت بڑھا چڑھا کر بھی پیش کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے لئے حال میں زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہے اور نہ ہی مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے ہمارے پاس کوئی خواب ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ گزشتہ 35 سے 40 سالوں میں جو حکمران بھی تخت نشین ہوا وہ ملک و قوم کو بحرانوں سے باہر نکالنے کے وعدے پر آیا مگر جاتے وقت اس بدنصیب قوم کو مزید بحرانوں میں دھکیل گیا۔ اس آخری لاڈلے ہی کو دیکھ لیں جو تاحیات حکمرانی کرنے کے خواب لے کر آیا تھا 9مئی کا تحفہ دے کر درجنوں دیگر مقدمات میں سلاخوں کے پیچھے بند پڑا ہے مگر ایک پاکستانی قوم ہے کہ اکثریت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ اگر غیرمنصفانہ انتخابات کروائے جائیں اور لیول پلئنگ فیلڈ دیا جائے تو تحریک انصاف دوبارہ برسراقتدار آ جائے گی۔
اس کے باوجود ماضی قریب میں نون لیگ، پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف میں سے کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھی تو وہ ان جماعتوں میں کسی ’’لاڈلا‘‘ ہی کی وجہ سے اقتدار میں آئی جسے سیاست کا فیئر پلے ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس دوران ہمارے لاڈلے حکمران اچھی حکمرانی دے سکے ہیں اور نہ ہی وہ ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کی کوئی مثال قائم کر سکے ہے۔ عوام کے مسائل بھی جوں کے توں رہے بلکہ مسلسل بڑھتے رہے اور سب سے بڑھ کر تلخ المیہ یہ پیدا ہوتا رہا کہ ہر بار انتخابات کی ساکھ بری طرح سے مجروح ہوتی چلی گئی۔
بعض معاشی اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ انتخابات شفافیت کے اعتبار سے گزشتہ انتخابات سے بھی زیادہ مشکوک ہیں جس سے انتخابات کے بعد موجودہ سیاسی و معاشی بحران پہلے سے زیادہ گھمبیر شکل اختیار کر لے گا۔
یہ مصدقہ بات ہے کہ ایک چیز کو یہ سوچ کر بار بار کرنا کہ اس سے مختلف نتائج سامنے آئیں گے پاگل پن کی علامت ہے۔ کل اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جو کچھ پی ٹی آئی کے سربراہ اور لاڈلے نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف احتساب کے نام پر کیا تھا آج کے لاڈلے میاں نواز شریف کی خاطر وہی کچھ نگران حکومت پی ٹی آئی کے امیدواروں سے کر رہی ہے جس میں جمشید دستی کی فیملی کے ساتھ ہونے والی تازہ زیادتی نے آئندہ انتخابات کے نتائج کو مزید تشویشناک بنا دیا ہے۔
کنفیوشس سے کسی نے پوچھا تھا کہ کسی ملک کی سلامتی اور فلاح و بہبود کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ کسی ملک کی بقاء و فلاح کے لئے تین چیزیں اہم ہیں اول طاقت ور فوج، دوم خوراک کی افراط اور سوم عوام کی باہمی یکجہتی و ہم آہنگی۔ سوال کرنے والے نے دوبارہ پوچھا کہ اگر یہ تینوں بیک وقت میسر نہ آ سکیں تو پھر کونسی چیز اہم ہے؟ کنفیوشس نے جواب دیا تھا کہ اگر طاقتور فوج نہیں ہو گی تو کوئی بات نہیں، کسی ملک کی سب سے بڑی فوج اس کے عوام ہوتی ہے، عوام خود اپنا دفاع کر لے گی۔
سوال کرنے والے نے پھر پوچھا کہ ان باقی دو چیزوں میں سے وہ کون سی چیز ہے کہ جس کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے، کنفیوشس نے جواب میں کہا کہ اگر خوراک کی قلت ہو گی تو کوئی بات نہیں، کسی نہ کسی طرح گزارا ہو جائے گا، عوام باہم مل کر اس کمی کا مقابلہ کر لے گی لیکن اگر عوام میں ہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہو گی تو ملک کی بربادی اور تباہی یقینی ہے۔
اس وقت پاکستان کی عوام میں اس ہم آہنگی اور یکجہتی کو شدید طریقے سے توڑا جا رہا ہے۔ ٹھیک ہے پی ٹی آئی ختم ہو جائے گی مگر اس کے دل سے عمران خان کو کیسے نکالا جائے گا؟ یہ ایک عام فہم اور سادہ سا سوال ہے کہ جب تک ملک و قوم کو ان لاڈلوں کے چکر سے نہیں نکالا جاتا جن کی خاطر انتخابات کا یہ ڈھونگ رچایا جاتا ہے ملک یونہی چلتا رہے گا۔ نہ ہم ماضی کے سحر سے نکلیں گے، نہ ہم حال میں رہنا سیکھیں گے اور نہ ہی ہم حقیقت پسندانہ مستقبل کا کوئی بہتر خواب دیکھ سکیں گے۔