انتخابات اور ہماری سیاسی قیادت

غلام مصطفی ٰ
جیسے جیسے عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم بھی زور پکڑ رہی ہے اور بیشتر ووٹرز کا رجحان اور مزاج بھی تبدیل ہوتادکھائی دے رہاہے ویسے بھی پاکستانی سیاست ہوائوں کے رخ کیساتھ چلتی ہے جس طرف کی ہوا ہوگی، سیاسی شخصیات اور عوام اسی طرف جائیں گے۔بلاشبہ 9مئی کے واقعات پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین باب ہیں اور کوئی بھی ملک اس قسم کے واقعات کی نہ تو حمایت کرسکتاہے اور نہ ہی ایسا کسی مہذب معاشرہ میں ہوتاہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے، 9 مئی کے روز پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے جس دانش اور صبر کامظاہرہ کیا وہ واقعی فہم وفراست کی عمدہ مثال ہے۔ جس طریقے سے بغیر کسی مزاحمت کے ان واقعات کو ہینڈل کیا گیا وہ بھی اپنی مثالی آپ ہے،کیونکہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت یہ بات بھانپ چکی تھی کہ یہ جو کچھ بھی ہورہاہے وہ ملک، عوام اور پاک فوج کے خلاف گہری سازش ہے جوکہ ملک دشمن قوتوں کے ایجنٹوں کی کارروائی معلوم ہوتی ہے، دنیا میںوہ کون سا ملک ہے جو اس قسم کے واقعات کی اجازت دے سکتا؟یا وہ کون سی سیاسی قیادت یا ملک کا شہری ہوسکتاہے جو اس قسم کی سوچ رکھتاہو، یہ پاکستان کی تاریخ کاعجیب وغریب اور وطن دشمنی پر مبنی اقدام تھا، لہٰذا 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے اورانہیں اپنی طرز سیاست کو بھی تبدیل کرنا پڑے گاورنہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دماغوں اور پارٹی کے اندر موجود فوج مخالف بیانیے کو ختم کرنے کی کوشش کریں،معاشرے یکجہتی اور محبت وبھائی چارگی سے ترقی کرتے ہیں، نفرتوں اور الزامات سے نہیں ۔ لہٰذا ہماری پوری سیاسی قیادت خود بھی اس بات کو سمجھے اور اپنے کارکنوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں کہ فوج کسی بھی ملک کے تحفظ و حفاظت کے لئے لازم ہوتی ہے، اپنی فو ج کے خلاف کھڑی ہونے والی عراقی قوم کاحال ہمارے سامنے ہے، عراقی قوم اپنی فوج کاساتھ نہ دیکر آج پچھتارہی ہے لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔
واضح رہے کہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس اور کور کمانڈرز نے 9 مئی کے حملوں کے حوالے سے کہہ دیا تھا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کے ٹرائل کے حوالے سے کوئی سمجھوتا نہ کرنے پر فوج پرعزم ہے اور ان افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا تھا کہ قصور وار افراد کا بدنما چہرا چھپانے کے لئے چلائی جانے والی کوئی مہم، پروپیگنڈا، حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی کوئی مہم کو سزا سے نہیں بچا سکتی۔ دوسری جانب سینیٹ نے فوج اور سکیورٹی افسران کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے پر سخت سزا کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی ہے۔ ایوان میں پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ حکومت سے سفارش کرتی ہے کہ وہ افواج پاکستان اور دیگر سکیورٹی اداروں کے خلاف منفی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے میں ملوث پائے جانے والوں کو عوامی عہدے سے 10 سال کی نااہلی سمیت سخت سزا دینے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائیں۔
اے میرے ومحب وطن پاکستانیو! ہم جتنی جلدی اپنی تاریخ کے سیاہ ترین واقعات سے سبق سیکھیں گے اور اسے اچھی طرح سمجھ لیں گے، وہ ملک اور عوام کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا، حد سے تجاوز کرنا نہ تو عوام کے لئے فائدہ مند ہے اور نہ کسی ملک یا کسی ادارے کے لئے ہو سکتا ہے لہٰذا سب کو اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتوںاور ان کی قیادت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات دوستانہ بنانے کی ضرورت ہے،دوسری جانب ہماری سیاسی قیادت کو بھی اپنے کارکنوں کو فوج مخالف بیانیے سے دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اورانہیں سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور پھر بھی اگر کوئی باز نہیں آتا تو اسے اپنی پارٹی سے نکال دینا چاہیے۔ فوج مخالف بیانیے سے گرہیز کرناچاہیے،جس طرح عوام کی عزت واحترام ہے اسی طرح فوج بھی ملک کاعظیم ترین اورمقدم ادارہ ہے جو ملک وعوام کی سلامتی و تحفظ کی مشکل ترین ذمے داری اپنی قیمتیں جانیں نچھاورکر کے نبھارہاہے،لہٰذا ایسے بیانات، الزامات اور باتیں نہ کی جائیں جس کے باعث ملک ڈی ریل ہوجائے بلکہ سب کو ملکر وطن عزیز کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، ملک اور عوام کو بدترین معاشی و سماجی حالات سے باہر نکالنے کے لئے کوششیں کرنا ہوگی، ہماری نوجوان نسل کو یہ بات بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر فوج ہے تو حفاظت اور تحفظ بھی ہے اور کوئی بھی ملک فوج کے بغیر اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر نہیں بناسکتا اور نہ آج تک بناپایاہے۔
اسرائیل میں ہر یہودی شہری کوفوج کی ٹریننگ لینا لازمی ہے، حالانکہ اسرائیلی فوج ظالم وجابر ہے اس کے باوجود کیا یہودی اپنی فوج سے لڑتے ہیں یا ان کیخلاف کسی عمل کاحصہ بنتے ہیں؟ہرگز نہیں بنتے ۔ یہودی اپنی فوج کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیادت اپنی ہی فوج کیخلاف باتیں کرتے ہیں؟ ان کے اس عمل سے فوج کامورال ڈائون ہوتا ہے اور عوام اور ادارے کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں،جوبعدازاں انہیں تقسیم کرنے کا سبب بنتے ہیں اوریہ عمل کسی بھی ملک وملت کے مفاد میں نہیں ہوسکتا ۔جو بھی سیاسی جماعت یا قیادت فوج اور عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کریگی وہ وطن عزیز اور اس کی عوام کی ہمدرد ہرگز نہیں ہوسکتی۔
ملک میں صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنانا الیکشن کمیشن کی اولین اور بنیادی ذمے داری ہے اور عدلیہ کو انتخابات پر کڑی نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات سامنے نہ آسکیں کیونکہ آئندہ انتخابات ماضی کے تمام انتخابات سے مختلف اور مشکل نظرآرہے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو آئینی و قانونی حق حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیں۔بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ اگر الیکشن کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی تو حالات خراب ہوسکتے ہیں لہٰذاحالات کی خرابی کے خدشات موجود ہیں۔ میرے خیال سے سیاسی جماعتوں کو اس موقع پر انتشار پھیلانے، لڑائی جھگڑے اور اداروں کے خلاف نفرتوں کو فروغ دینے والے خیالات اور بیانات دینے سے گرہیز کرنا چاہیے اس قسم کے خیالات کا مکمل خاتمہ ہوناچاہے۔ محاذ آرائی کی سیاست کرکے نہ تو کوئی ملک آگے بڑھ سکتاہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت۔کیونکہ پاکستان پہلے ہی معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے اور پھرایسے موقع پر پاکستان دشمن قوتیں وطن عزیز میں خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنے کوشش کرسکتی ہیں، اس پہلو پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی معیشت پہلے ہی ڈوب رہی ہے اور بمشکل ملک ڈیفالٹر ہوتے ہوتے بچاہے۔ گمبھیرمسائل میں الجھی پاکستانی قوم کو مزید تقسیم کرنے کی کوششیں ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سیاسی قیادت اور طاقتور اداروں کے درمیان ہم آہنگ پیدا کرنے کی ضرورت ہے،اتحاد ویکجہتی کے ذریعے ہی آگے بڑھاجاسکتاہے کیونکہ ہم سب پاکستانی ہیں، فوج بھی ہماری ہے، ملک بھی ہمارا، عوام بھی ہماری ہے، معیشت کی بہتری اور ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہماری سیاسی قیادت ملک کو بچاناچاہتی ہے تو اسے آپس میں موجودہ اختلافات کو ختم کرناہوگا اس کے علاوہ اداروں کے خلاف بلاوجہ کی تنقید کو روکناہوگا بلکہ اس کا مکمل خاتمہ کرناہوگا کیونکہ جب کوئی سیاسی لیڈر کسی ادارے کو ٹارگٹ بناتے ہوئے اس پر تنقید کرتاہے تو وہاں اصلاح واحول کا پہلو پس پردہ چلاجاتاہے اور تنقید برائے تنقید واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی ہر غلطی کا الزام دوسروں پرعائد کرنے سے بہتر ہے کہ غلطی کو قبول کرتے ہوئے اسے دوبارہ نہ دہرانے کاعہد کیاجائے تاکہ ملک اور معیشت کا پہیہ آگے بڑھ سکے۔
انتخابات کے حوالے سے درپیش مسائل میں پہلا سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ آئندہ انتخابات کاانعقاد صاف وشفاف اور سب کیلئے قابل قبول ہوناچاہیے‘ اگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج پر الزامات لگانا شروع کردیئے اور اور انتخابات کی شفافیت مشکوک ہوگئی تو پھر ملک کا آگے بڑھنا مزید مشکل ہوجائے گا ۔ معاشی وسیاسی استحکام اسی صورت میں آسکتاہے جب سیاسی جماعتیں صبر اور برداشت کا مظاہرہ کریں گی ‘ کیونکہ الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری صاف و شفاف انتخابات کروانا ہے لہٰذا اسے پارٹی بننے سے گرہیز کرناہوگا اور الیکشن کمیشن کو اپنے اقدامات سے یہ تاثر زائل کرنا ہوگا جس سے الیکشن کمیشن کی جانبداری نظر آئے ‘ خدانخوستہ اگر صاف شفاف انتخابات نہ ہوئے تو پھر ریاست اور معیشت کا کیا بنے گا؟لہٰذاملک کوڈی ریل ہو نے سے بچانے کی سب سے بڑی اور بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور سیاسی قیادت کے کندھوں پر آن پڑی ہے کیونکہ ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام کاانحصار آئندہ ہونے والے انتخابات کے صاف وشفاف انعقاد پر ہے۔
سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ آپس میں بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں‘ سیاسی رہنمائوں کوانتخابی جلسے ‘ جلسوں اور کارنرمیٹنگ میں نفرتوں کو پھیلانے اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے گرہیز کرناہوگا کیونکہ اکثر اختلافات اور لڑائی جھگڑے یہیں سے جنم لیناشروع ہوتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے بعدازاں کسی بڑے سانحہ کی صورت میں رونما پذیر ہوجاتے ہیں‘دوسری جانب الیکشن کمیشن سمیت تمام اداروں کوچاہیے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنے کی کوشش یا حماقت نہ کریں ‘ کیونکہ 1971میں جو کچھ کیا گیا اس کانقصان ایک بڑے سانحہ کی صورت میں اٹھانا پڑاتھا‘ اُس وقت بھی انتخابات کے بعد آنیوالے نتائج کو قبول نہ کرنے اور اپنی انا اور ضد اور بھارتی سازشوں کی وجہ سے ملک کو دولخت کردیا گیا‘ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔