آج کے کالم

دسمبر مجھے بھولتا نہیں

مشتاق قمر

شاعروں نے دسمبر کے حوالے سے بے شمار اشعار لکھ کر اس کے سواد میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دسمبر کی ٹھنڈی راتیں آنے کا شدت سے انتظار ہوتا تھا۔ گرم انڈے، مونگ پھلی، چلغوزے اور سردی کی پنجیری ہر گھر میں بنائی جاتی تھی۔ مائیں اپنے بچوں کو سپیشل خوراک کے طور پر بنا کردیتی تھیں اور یہاں تک کہ آس پاس کے گھروں میں بطور تحفہ بھی دیا جاتا تھا۔ جہاں زمانہ سکڑ کر کمروں تک محدود ہو گیا ہے، وہاں ہمسایہ گری بھی دم توڑ گئی ہے۔ دیسی چنوں کا حلوہ، گاجرکاحلوہ، میوہ جات سے تیار کردہ مٹھائیاں ہمارے معاشرے اور روایات کا خوبصورت عنصر ہوا کرتا تھا۔ اب مہنگائی اور کاغذی رشتوں نے یہ سب کچھ بھی چھین لیا ہے۔ یہ چیزیں اس وقت بنتی تھیں جب گھر کا ایک فرد کماتا تھا اب گھر کے سب افراد کماتے ہیں اور ہم اپنی دو وقت کی روٹی تک پوری نہیں کر سکتے۔ کیا اس وقت مہنگائی نہیں تھی معاشرہ اس وقت بھی ایسا ہی تھا، فرق یہ تھا کہ ہم مل جل کر ایک چولہے پر پکاتے اور کھاتے تھے ، اب ہمارے چولہے بند ہو گئے ہیں۔ ہم نے ہوٹلوں اور کیفے کا رخ کر لیا ہے۔ اب ہر ایک کی اپنی جیب ہے اور اپنی مرضی، جس سے اخراجات تو بڑھے ہی ہیں وہاں برکت اور احساس بھی ختم ہو گیا ہے کوئی ساتھ کمرے میں بھوکا مرے ہمیں کوئی احساس نہیں، مہنگائی اس وقت بھی تھی مگر ہم ایک کمرے میں سوتے تھے۔ ایک صحن میں قطار در قطار چارپائیوں پر سوتے تھے۔ ہمارے رشتے مضبوط تھے ہمیں ہر روز والد اور والدہ کی شکل دیکھنے کو ملتی تھی اب مہینوں بیت جاتے ہیں ہم ایک دوسرے سے ملنے سے قاصر ہیں۔ اگر کوئی نوکری کرتا ہے تو وہ منہ اندھیرے گھر سے نکلتا ہے اور رات گئے واپس پلٹتا ہے ہم ملنے جلنے اور بات کرنے کو ترستے ہیں جس سے ہمارا تعلق واجبی سا بن کر رہ گیا ہے۔
ہر شخص اپنی دنیا میں مگن ہے ہمارے مزاج اور عادات میں فرق آ گیا ہے جب گھر کے افراد ایک دوسرے سے دور ہوں گے اور ہر شخص اپنے کمرے تک محدود ہوگا اس سے جیب پر بھی بوجھ آئے اور ہمارے طرزعمل میں بھی فرق آئے گا۔ ایک کمرے میں انرجی کا استعمال اس کے مقابلے میں تین کمروں میں بجلی کا استعمال ،بل تو زیادہ آئے گا پھر ہم رونا روتے ہیں کہ مہنگائی ہو گئی۔ آپ کسی روز سڑک یا چوراہے پر کھڑے تجزیہ کریں سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں میں ہر گاڑی میں ایک بند سفر کرتا دکھائی دے گا جس سے آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے، پٹرول کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور ہمارے ماہانہ بجٹ پر بھی بوجھ آتا ہے۔ اللہ کے نیک بندے آج بھی چلتے راستے میں کسی نہ کسی کو لفٹ دے کر کسی نہ کسی کے لئے آسانی ضرور پیدا کرتے ہیں مگر جس طرح کے معاشرہ میںہم رہ رہے ہیں وہاں نیکی بھی بعض دفعہ الٹی پڑ جاتی ہے اس لئے ہر کوئی یہ سہولت نہیں دیتا پھر بھی کوشش کریں کہ ہم بچت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں ۔ فاسٹ فوڈ سے دور رہیں، مل جل کر رہنے کی عادت اپنائیں جس سے معاشرہ میں بہت سی خرابیاں دور ہو جائیں گی۔ایک دوسرے سے محبت کے رشتے مضبوط ہوں گے، مہنگائی میں کمی محسوس ہو گی۔ رشتے ناطے تواناہوں گے۔ اکثر دیکھاہے کہ ہم جوانی کے نشے میں اپنے قریبی عزیزوں کو اتنا دور کر دیتے ہیں کہ پچھلی عمر میں بچوں کے رشتے ناطے جوڑنے کے لئے رشتہ ایپ یا میرج بیورو کا سہارا لینا پڑتا ہے کیوں نہ ہم تحفے تحائف دیں آتے جاتے رہیں تاکہ بچوں کے رشتوں کے لئے مصنوعی سہاروں کی ضرورت پیش نہ آئے۔ آج اکثر عمر رسیدہ لوگ کسی سے بات کرنے کو ترستے ہیں، ملنے کی تمنا کرتے ہیں مگر اپنے تو اپنے پرائے بھی ملنا پسند نہیں کرتے۔ اکلاپے کی اس زندگی سے بیزار لوگ اسی لئے نفسیاتی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس اپنے تجربے کا بے بہا خزانہ ہوتا ہے جس کو ہم اپنی لاپرواہی سے ضائع کر دیتے ہیں۔ دسمبر کے سرد موسم میں یہ لوگ اپنے کمروں میں دروازے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی آ جائے اور تھوڑی سی دیر کے لئے میرے دکھ بانٹ دے مگر دن مہینوں میں کٹ جاتے ہیں اور یہ درویش اور قیمتی لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور ہم سوشل میڈیا اور ہر جگہ ان کے دکھ کے وہ قصے سناتے ہیں کہ ہمارے جیسا محبت والا کوئی دوسرا دنیا میں ہے ہی نہیں۔
گذشتہ دنوں ہی ہمارے ادب اور معاشرے کے دو خوبصورت انسان یکے بعد دیگر ایک دن کا وقفے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان میں ایک سید فراست بخاری تھے جو شاعر باکمال کے ساتھ ساتھ نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ ہر پروگرام میں جس محبت اور ذمہ داری سے شریک ہوتے الفاظ میںبتانے سے قاصر ہوں ۔ لاہور کے ادبی حلقے ان کے مزاج اور محبت سے خوب آشنا تھے۔ گذشتہ سال دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے مگر جلد صحت یاب ہو کر پھر اس دنیا کے بے ہنگم شور کا حصہ بن گئے۔ ۳دسمبر کی صبح اچانک دل کا دورہ پڑا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دائمی اجل ہو گئے۔ اسی طرح پاکستان کے بے مثال فنکار ،باکمال مصور، ادیب، براڈکاسٹر ،افسانہ نگار اسلم کمال بھی اس سال کے پہلے دن ہم سے رخصت ہو گئے۔اکادمی ادبیات اسلام آباد،ایوان اقبال لاہور اور دیگر معروف قومی جگہوں پر آپ کا کام نظر آتا ہے اور ہمیشہ آپ اپنے فن اور کام کے حوالے سے یاد رہیں گے۔بزم انجم رومانی کی ایک محفل میں میری پہلی ملاقات ہوئی، میں نے دیکھا وقت پر آنا اور پروگرام کے اختتام تک رہنا آپ کا معمول تھا ۔ جن سے وعدہ کر لیا اس میں ضرور شریک ہوئے اور کبھی کسی مصنوعی پن کا تقاضا نہیں کیا۔ چند ایک دوست تھے جن سے آپ کی محبت ہمیں نظر آتی تھی ان میں ڈاکٹر ایم ابرار اور عاصم بخاری تھے جن سے آپ بے پناہ محبت کرتے تھے۔
دسمبر کے مہینے میں ہمیشہ بہت سے ہم نے جنازے اٹھائے ہیں جن میں منیر نیازی، ظہیر کشمیری، سجاد حیدر، پروین شاکر اور بھی نامور شخصیات ہیں جن کا زخم آج بھی تازہ ہے۔ جن کی آواز ان کے شعروں کی صورت سنائی دیتی ہے۔یہی بڑے لوگوں کا کام ہے جوان کے جانے کے بعد بھی زمانہ اسے یاد رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سالوں پہلے گزر گئے مگر ان کی یاد آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں عین اسی وقت پاکستان مسلم لیگ کے نامور لیڈر، مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے سرگرم رکن سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز کی موت کی خبر سن رہا ہوں۔ سرتاج عزیز بھی مسلم لیگ کا بے بہا خزانہ تھے۔ ہمیشہ اپنی سیاست کو اپنے مفاد کے آگے آنے نہیں دیا۔ تمام عمر ایک جماعت اور ایک لیڈر کے طابع رہے۔ بہت سی تیز آندھیاںآئیں، طوفان آئے مگر آپ کو اپنی جگہ سے ہٹانے میں ناکام رہے۔
کیسے کیسے فاصلے چشم زدن میں کٹ گئے
کیسے کیسے لوگ اپنے درمیاں سے ہٹ گئے
دائرہ در دائرہ چلتی رہی شب بھر ہوا
کیسے کیسے چاند چہرے آندھیوں سے اَٹ گئے
مختصر اتنی سی ہے بس رابطوں کی داستاں
گھر سے تو مل کر چلے تھے راستے میں بٹ گئے

جواب دیں

Back to top button