عظمت کا اصل معیار

قاسم مغیرہ
کسی شخص کی عظمت اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں کتنے احسن طریقے سے سرانجام دیتا ہے۔ محض بڑے بڑے القابات کسی کی عظمت کا تعین نہیں کرسکتے۔ خوشامد اور کچھ گم راہ کن معلومات کسی کو وقتی طور مصنوعی مقام تو عطا کرسکتی ہیں لیکن تاریخ کا بے رحم صراف کھوٹے کھرے کو اس طرح الگ کردیتا ہے کہ سارے کردار بے نقاب ہوجاتے ہیں، حقائق منظر عام پر آجاتے ہیں اور مصنوعی عظمت کا ہمالیہ پاش پاش ہوجاتا ہے۔
اگر کسی کی خوئے غلامی پختہ ہو جائے تو وہ انسانوں کی عظمت کو سطحی پیمانوں سے ناپتا اور یہ یقین کرلیتا ہے کہ جاہ و حشمت کا حامل شخص بہت عظیم ہے۔
وطنی عزیز میں جہاں حقیقی سیاسی قیادت پروان نہیں چڑھ سکی، مصنوعی قیادت کو بار بار نئے رنگ و روغن سے مزین کرکے بازار سیاست کی زینت بنادیا جاتا ہے۔ خریدار کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ کہ مصنوعی قیادت کی غلامی پر راضی ہو جائے یا بازار سے چپ چاپ گزر جائے۔ اس طرح خریداری کے عمل کا مقاطعہ کرنے والے کی رائے کسی شمار میں نہیں آئے گی بل کہ پست ترین معیار پر سمجھوتا کرنے والوں کی رائے کو ضمیر عصر اور ندائے وقت بناکر پیش کیا جائے گا۔ اس مصنوعی سیاسی قیادت، جو عوام کے ایک کثیر حصے کی ٹھکرائی ہوئی ہوتی ہے ، نے قوم کا شعور سلب کرنے اور انہیں اسیری کا خوگر بنانے کی ہر ممکن سعی کی ہے۔ نتیجتاً لوگ سطحی بیانیوں ، سیاسی شعبدہ بازیوں اور لفظوں کی جادو گری سے بہل کر اپنے حقوق سے بھی لاتعلق ہوگئے ہیں۔ خوشی کا معیار صرف یہ رہ گیا ہے کہ مخالف جماعت زیر عتاب رہے ، پسندیدہ جماعت مسند اقتدار پر براجمان ہوجائے، بقیہ تمام چیزیں غیر متعلق ہوکر رہ گئی ہیں۔
اس مصنوعی قیادت کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے متبادل قیادت کا راستہ روک رکھا ہے۔ جماعتی ڈھانچہ، انتخابی قوانین اور سیاسی کلچر اس قسم کے بنادئیے گئے ہیں کہ شدید مزاحمت کے بغیر انہیں بدلنا مشکل ہے۔ سیاسی قیادت کی عظمت ماپنے کے مؤثر پیمانے گڈ گورننس، پائیدار ترقی، قوم کی تربیت، کردار سازی، عالمی سطح پر اپنے مفادات کا تحفظ اور مضبوط معیشت ہیں۔ ہمارے ہاں یہ سب چیزیں مفقود ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی قیادت بہ ضد ہے کہ اس کے خلاف سوال نہ اٹھایا جائے، تنزلی کو ہی ترقی سمجھ لیا جائے اور چپ چاپ قصیدہ گوئی کی رسم جاری رکھی جائے۔
اسی طرح محض تعلیم اور اعلیٰ ڈگریوں کا حصول بھی کسی شخص کو عظیم نہیں بناتا تاوقتیکہ کہ اس کے اعمال اس کی تعلیم سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ کسی شخص کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل جانا بہت بڑی کام یابی سمجھی جاتی ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ محض ڈاکٹر بن جانے میں عظمت نہیں ہے۔ عظمت مسیحائی میں پنہاں ہے۔ کوئی ڈاکٹر کتنی ہی ڈگریوں کا حامل ہو، بیرون ملک کی اعلیٰ سے اعلیٰ درس گاہوں سے تعلیم یافتہ ہو اور اپنے فن میں کتنا ہی تاک ہو، اس وقت تک عظیم نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے فرائض منصبی دیانت داری سے سرانجام نہیں دیتا۔ میڈیکل پریکٹس سے پیسے کمانا ہر ڈاکٹر کا حق ہے لیکن اگر وہ علاج معالجے کے بجائے کسی فارماسیوٹیکل کمپنی کے مفادات کا تحفظ کرنے لگے، غیر ضروری ادویات تجویز کرنے لگے، کسی لیبارٹری کے منافعے میں ساجھے دار بن کر غیر ضروری ٹیسٹ تجویز کرنے لگے، مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے لگے تو وہ ہرگز عظیم نہیں ہے۔ وہ ایک مجرم ہے۔ ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ کسی شخص کو مسئلہ کچھ اور تھا ، ڈاکٹر علاج کسی اور مسئلے کا کرتے رہے۔
عظمت محض مقابلے کے امتحان میں اول آنے میں بھی نہیں ہے
عظمت کا امتحان تو ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ کوئی بیوروکریٹ انگریزی میں کتنا ہی رواں ، گفت گو میں کتنا ہی فصیح اللسان ، فلسفے کا کتنا ہی خوگر اور کتاب کا کتنا ہی رسیا ہو، اس وقت تک عظیم نہیں کہلاسکتا جب تک وہ انتظامی امور میں تاک نہ ہو جائے، اپنے ادارے کو منافع بخش نہ بنادے، اپنے دفتر سے رشوت کا خاتمہ نہ کردے، خود کو قوم کو حقیقی خادم نہ سمجھے اور اپنی ذمہ داریاں بہ طریق احسن سرانجام نہ دے۔
کوئی منصف غیر ملکی اداروں سے قانون کی اعلی ڈگریاں حاصل کرکے عظیم نہیں ہوجاتا۔ اس کی حقیقی عظمت یہی ہے کہ فیصلے کرتے وقت کسی کے دباؤ میں نہ آئے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ منصف اپنی ذات کے بارے میں تو اتنے حساس ہوتے ہیں کہ فوراً توہین عدالت کی کارروائی کی دھمکی دے ڈالتے ہیں لیکن سائل کی عزت نفس کے معاملے میں ایسی حساسیت نہیں دکھاتے۔
اسی طرح عساکر کی عظمت یہ ہے کہ اپنی توجہ سرحدوں کی حفاظت تک محدود رکھیں۔ عسکری تربیت کے ملکی اور غیر ملکی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی اگر کسی کو اپنی ملازمت کا مقصد سمجھ نہ آئے تو اس کے شانوں پر سجے چاند تارے کس کام کے؟
اسی طرح ایک صحافی کی عظمت یہی ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ غلط کو غلط اور درست کو درست کہے۔ اگر کوئی صحافی قصیدہ گوئی شروع کردے اور اس کے صلے میں کوئی حکومتی منصب حاصل کرلے تو وہ صحافی کہلانے کا حق دار نہیں ہے۔ اگر کوئی صحافی کسی ایک جماعت میں کوئی برائی دیکھ کر بہت شور کرے اور کسی دوسری جماعت میں وہی روش دیکھ کر خاموشی سادھ لے یا آنکھیں موند لے تو اس کا مسئلہ مفادات تو ہوسکتے ہیں ، کسی غلط رسم کی بیخ کنی ہرگز نہیں۔ صحافی کتنی ہی عمدہ نثر میں جھوٹ لکھ لے، بہرحال وہ جھوٹ ہی کہلائے گا۔
عظمت کے اصل امتحان میں بڑے بڑے لوگ بری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ اعلیٰ عہدے داروں کو اگر عظمت کی حقیقی کسوٹی پر پرکھا جائے تو نتیجہ مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ سیاست دان کو جمہوریت کے لٹمس پیپر سے جانچا جائے تو دور دور تک جمہوریت دکھائی نہ دے بل کہ فسطائیت اور آمریت کے سوا کچھ نظر نہ آئے۔ انتظامی کارکردگی کے پیمانے سے اگر افسر شاہی کی عظمت ماپی جائے تو کچھ حاصل نہ ہو۔ عدل کی ترازو سے قاضی کی عظمت تولی جائے تو سخت ریمارکس، توہین عدالت کی دھمکیوں اور غیر ضروری باتوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔ انسانی عظمت ماپنے کا سب سے بڑا پیمانہ قول و عمل کی ہم آہنگی ہے۔ جو اس معیار پر پورا اترے عظیم ہے، جو قول و فعل کے تضاد کا شکار ہو، وہ عظمت سے کوسوں دور ہے۔