آج کے کالمعامر اسماعیل

بے چارے سیاسی کارکن

عامر اسماعیل

ہم نے قربانیاں دی ہیں ،جیلیں کاٹی ہیں، کوڑے کھائے ہیں، جلاوطنی کے ستم جھیلے ہیں۔ بیڈ گورننس پر پردہ ڈالنے کیلئے سیاسی جماعتیں اس قسم کے راگ الاپتے رہتی ہیں۔ کوئی گفتگو، انٹرویو ، جلسہ، پریس کانفرنس اور ٹاک شو اس قسم کی باتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ یہ قربانیاں کس لئے دی گئیں؟ یہ نوبت کیوں آتی ہے کہ ایک سیاست دان جیل جائے اور مشقتیں برداشت کرے؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس نے واقعتاً کوئی جرم کیا ہو۔ اگر اس نے ایسا کچھ کیا ہو تو بھی کچھ پیشیوں کے بعد اسے رہائی مل جاتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہو، ایسا کرنا ازروئے شریعت ایک مذموم فعل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ترجمہ:تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو۔ ( سورہ المائدہ آیت 8)
ایک سیاست دان کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کے ذریعے ایسی عدالتی اصلاحات متعارف کرائے کہ کسی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہ بنایا جاسکے ۔ اپنے مزاج کو جمہوریت، صبر اور برداشت کے سانچے میں ڈھالے۔ مخالف کی مقبولیت سے گھبرا کر غیر جمہوری اور فسطائی ہتھکنڈوں پر نہ اترے۔
سیاست دانوں کی قربانیوں کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ عموماً زیادہ قربانیاں ان کے کارکن دیتے ہیں۔ غربت، افلاس اور تنگ دستی برداشت کرتے ہوئے اپنے قائدین کا مقدمہ لڑتے ہیں اور اپنے قائد کے سیاہ کو سفید کہتے ہیں۔ اس طرح غریب کارکن سیاست دانوں کے مفادات کی بھٹی میں جھونک دئیے جاتے ہیں۔ سیاست دان وطن واپسی کے لئے مناسب حالات کا انتظار کرتا رہتا ہے ۔ جب ایسا ماحول بن جائے کہ فتح یقینی ہو تو جمہوریت اور آئین کے گھسے پٹے نعرے لگا کر میدان میں کود پڑتا ہے اور اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوجاتا ہے۔ عنان حکومت سنبھالنے کے بعد جب قربانی کا اصل مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو سیاست دان قربانی دینے سے گریز کرتا ہے اور اپنے مالی مفادات کی قربانی کے بجائے اہل خانہ سمیت بحر مفادات میں غواصی کرتا ہے۔ جاہ و حشمت کے مزے لوٹتا ہے۔ اس طرح ایک سیاست دان اپنی انتخابی مہم میں جن اصولوں کا پرچارک ہوتا ہے، اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں پس پشت ڈال دیتا ہے۔ مسند سنبھالنے کے بعد سیاست دان کو آئین اور قانون کے سامنے سر تسلیمِ خم کرنے کی قربانی بھی دینا ہوتی ہے لیکن وہ آئین و قانون کو خاطر میں نہیں لاتا۔ آئین کی ایسی شقیں،جن کا تعلق خالصتاً عام آدمی کی توقیر سے ہے، جمہوری دور میں بھی پامال ہوتی ہیں۔
سیاست دان کو اقتدار سنبھالنے کے بعد تیسری بڑی قربانی یہ دینا ہوتی ہے کہ ملکی مفاد کے سامنے اپنا ذاتی مفاد ترک کردے لیکن یہاں بھی وہ قربانی دینے کے بجائے اپنے مفادات اور خاندان کو مقدم جانتا ہے۔
قربانی کا ایک میدان یہ بھی ہے کہ سیاست دان جمہوری رویوں کی پاس داری کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کرائے اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرے لیکن متبادل قیادت میسر آجانے کے خوف سے وہ ایسا کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔
سیاسی قیادت کو چاہیے کہ بحران کے وقت قوم کے ساتھ کھڑا ہو اور پیٹ پہ پتھر باندھ کے قوم کے درد میں شریک ہو لیکن وہ قربانی دینے کے بجائے برملا کہتا ہے کہ چائے میں چینی کم استعمال کرو۔ عوام کام کریں۔ لوگوں کے معاشی حالات بہتر کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں اور یہ کہ قوم مشکل فیصلوں کے لئے تیار رہے۔
قربانی کے اصل موقع پر سیاست دان قربانی دینے کے بجائے پتلی گلی سے نکل جاتا ہے اور جب دنوں کے ہیر پھیر سے وہ پس دیوار زنداں چلا جاتا ہے تو قانون و انصاف کی تبلیغ شروع کردیتا ہے۔ ایک شخص جب جیل میں ہو تو اس کے پاس صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اور جب وہ جیل سے باہر آکر اقتدار سنبھالنے کے بعد بری کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی غرض سے یہ کہے کہ میں نے عوام کے لئے جیل کاٹی تو بات کچھ جچتی نہیں ہے۔ عوام کے لئے جیل کاٹنے کی باتیں کرنے والا عوام کے لئے اپنے مفادات، خدم و حشم، تنخواہ اور مفت پٹرول کی قربانی دینے پر تیار نہیں۔ یہ کیسی قربانی ہے؟ سیاست دان کے لئے قربانی کا سب سے بڑا میدان یہ ہے کہ وہ مال کی قربانی دے اور دیگر اداروں کی بھی قربانی کا پابند کرے۔
قربانی کا دوسرا بڑا میدان سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشنز میں شفافیت لاکر جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ شمولیتی بنانے کی ضرورت ہے۔ قربانی کا تیسرا بڑا میدان یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے ہوں اور منتخب نمائندوں کو بااختیار بنایا جائے۔قربانی کا چوتھا بڑا میدان درست ترجیحات کا تعین ہے۔ شعبدہ بازی کے بجائے پائیدار ترقی کو ہدف بنانے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کو علاقائی کارڈز کھیلنے کے بجائے وفاقیت اور قومی سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے عمل سے یہ تاثر ختم کردینا چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کے دروازے عام آدمی پر بند ہیں۔
پس نوشت :
کسی بھی شخص پر روا رکھا جانے والا ظلم قابل مذمت ہے لیکن جب کارکردگی کی بابت سوال کیا جائے تو سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی پیش کرنی چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button