ایڈیٹوریل

افغانستان کی احسان فراموشی

پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے دراندازی کی کوشش کرنے والے تین دہشت گردوں کوسکیورٹی فورسز نے فائرنگ کے تبادلے کے بعد جہنم واصل کر دیاہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق ایک اور واقعہ میں 30؍31 دسمبر کی درمیانی رات افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کے ضلع اسپن وام کے علاقے میں پاکستانی سرحدی چوکی پر فائرنگ کی۔ پاک فوج کے جوانوں نے اس دہشت گردی کا بھرپور جواب دیا جس سے دہشت گردوں کو کافی نقصان پہنچا۔ تاہم فائرنگ کے تبادلے کے دوران پاک فوج کا ایک جوان شہید ہوگیا۔ آئی ایس پی آر کا ایک بار پھر کہنا ہے کہ پاکستان مستقل طور پر عبوری افغان حکومت سے کہتا رہا ہے کہ وہ سرحد کے اطراف میں موثر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنائے۔ توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔ افغانستان سے پاکستان پر حملے اِس لئے بھی تکلیف دہ ہیں کہ ہمارے اطراف میں چین، ایران اور بھارت بھی ہیں، ایران سے ہمیں ایسے مسائل کا سامنا کبھی نہیں ہوا مگر افغانستان میں افغان مسلمانوں یعنی طالبان کی عبوری حکومت کے باوجود افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کئے جارہے ہیں، حالانکہ توقع تو یہ تھی کہ پاکستان، افغان عوام اور افغانستان میں امن کے لئے چار دہائیوں کے لئے جتنی بڑی قیمت ادا کرتا رہا ہے ہمیں افغانستان سے ٹھنڈی ہوا آتی، مگر افسوس کہ نیٹو فورسز کے جانے اور طالبان کی عبوری حکومت آنے کے بعد حالات میں کوئی فرق نہیں آیا البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ نیٹو فورسزکی موجودگی میں افغان صدر اشرف غنی بھارتی حکومت کے آلہ کار بن کر پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بھارتی حکومت کے وفادار ایجنٹ کے طورپر کام کررہے تھے اور انہیں نیٹو فورسز کی طرف سے بھی کسی قسم کی رکاوٹ یا روک ٹوک نہ تھی لہٰذا ہمیں بیک وقت بھارت کے ساتھ ساتھ افغان محاذ پر پوری توجہ مرکوز کرنا پڑ رہی تھی۔ پاکستان کی طویل کوششوں سے نیٹو فورسز تو افغانستان سے چلی گئیں مگر افغانستان کی طرف سے دراندازی کا سلسلہ ختم یا کم نہیں ہوا۔ بلکہ آج بھی افغان سرزمین دہشت گرد ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں اور جب بھی افغان عبوری حکومت کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی جاتی ہے اِن کارویہ انتہائی افسوس ناک ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں ہر ملک جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنا اور اپنے ہمسائیوں کے ساتھ پرامن رہنا چاہتا ہے۔ بلکہ اب دور ِ جدید میں معاشی میدان میں جنگیں لڑی جارہی ہیں مگر افسوس کہ ہماری جغرافیائی اہمیت اور بڑی طاقتوں کے خطے سے وابستہ مفادات کی وجہ سے ہمیں چہار اطراف سے بے انتہا چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں داخلی اور سرحدی سکیورٹی کے معاملات میں اتنا اُلجھادیاگیا ہے کہ ہم معیشت کی جانب پوری توجہ نہیں دے پارہے، بیس سال افغانستان میں موجود رہ کر نیٹو فورسز نے سہواً یا جان بوجھ کر ایسی غلطیاں کیں جن کا خمیازہ ہم آج بھی دہشت گردی کے واقعات میں قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر بھگت رہے ہیں۔ دوسری طرف بھارت نے سرحد پر منہ توڑ جواب ملنے کے بعد ہمیں دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لئے دنیا بھر سے دہشت گرد اکٹھے کرکے پاکستان روانہ کئے، آج بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا،اور سکیورٹی فورسز ان دہشت گرد بھیڑیوں کو تلاش کرکے شکار کررہی ہیں،اگر ہمیں افغان طالبان عبوری حکومت کا تعاون حاصل ہوتا تو ہم پوری توجہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے پر مرکوزکرتے مگر افسوس کہ ہمیں ہمسایہ ملک سے تعاون اور امن تو دور دہشت گردی اور حملوں کا سامنا ہے ، اگرچہ ہم پوری طاقت کے ساتھ سرحد پار جاکر دہشت گردوںکی پناہ گاہیں ختم کرسکتے ہیں اور یہ حقیقت افغان عبوری بخوبی جانتی ہے مگر اِس کے باوجود وہ ہمارے صبر کو آزمارہی ہے ، لیکن یاد رہنا چاہیے کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دیر نہیں لگتی، اگر ہم دنیا کی طویل ترین دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں تو سرحد پار دہشت گردوں کی کمین گاہوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ افغان عبوری حکومت نے پاکستان کے احسانات بالخصوص افغان مہاجرین کی چار دہائیوں تک میزبانی اور افغانستان سے خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے تمام تر کوششوں کو نظر انداز کرکے ہمیں ہی اپنا ہدف بنالیا ہے، جو انتہائی افسوس مگر اب ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button