کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ
ملک بھر میں عام انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے لیکن گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین سمیت اُن تمام سرکردہ رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی مختلف وجوہات کی بنیاد پر مسترد کردیئے گئے جو کسی نہ کسی طریقے سے بچ بچاکر کاغذات نامزدگی داخل کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ عمران خان سمیت اعظم سواتی، ذلفی بخاری، عثمان ڈار کی والدہ اور بھابی سمیت کئی رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، اگرچہ اختر مینگل سمیت دوسری جماعتوں کے بھی چند ایک لوگوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے لیکن ہفتے کا دن پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین اور اُن کی پارٹی کے اُمیدواروں کے لئے بُرا ہی ثابت ہوا۔ عین ممکن ہے کہ اِس کے بعد بھی کوئی ایسا پلیٹ فارم ہو، جہاں رجوع کرکے یہ شخصیات آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لئے بطور اُمیدوار اہل قرار پائیں مگر حالیہ مرحلے میں تو ان کو عام انتخابات کی دوڑ سے باہر نکال دیاگیا ہے۔ بلاشبہ مخالف سیاسی جماعتیں اِس پر بغلیں بجائیں مگر جو جیسا چل رہا ہے اُس کا نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا، ایک اور خبرہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کردی ہے ۔درخواست میں الیکشن کمیشن نے عدالت سے حکم امتناع ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس کیلئے ڈویژنل بنچ تشکیل دیا جائے۔اِس کا پس منظر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے 23 نومبر کو حکم دیا تھا کہ تحریک انصاف بلے کو اپنے انتخابی نشان کے طور پر برقرار رکھنے کے لئے 20 دن کے اندر اندر پارٹی انتخابات کرائے۔اِس کے بعد 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا اور پھر پی ٹی آئی کو عدالت سے ریلیف ملا لہٰذا الیکشن کمیشن نے اب پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کردی ہے۔ بلاشبہ اداروں کو سیاسی اثرورسوخ سے پاک اور غیر جانب دار ہونا چاہیے، کیونکہ ادارے جتنے آزاد اورغیر جانب دار ہوں گے اتنا ہی بہترین کام کریں گے، مگر اِس کے لئے ضروری ہے کہ اُن اداروں سے وابستہ شخصیات بھی سیاسی وابستگی اور پسند ناپسند سے آزاد ہوں۔ کیونکہ ادارے اور اُن سے وابستہ شخصیات آزاد اور غیر جانب دار ہوں گی تبھی اُن کے احترام میں اضافہ ہوگا۔ مگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ اِس معاملے میں ہم بہت کمزور ہیں۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں کوئی معاملہ ایسا سامنے ضرور آتا ہے جس میں اداروں اور اُن سے وابستہ شخصیات کی ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی محسوس ہی نہ کرے تو پھر ساکھ اور وقار مجروح ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ماضی میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے اُن میں ہم نے سیاسی جماعتوں کے درمیان تو دنگل ہوتے دیکھا بڑے بڑے معرکے بھی ہوئے، قدآور شخصیات مخالف سیاسی شخصیات کے مدمقابل اُسی حلقے سے میدان میں اُتریں، مگر اِس بار تو اُس انتخابی دنگل سے پہلے جابجا دنگل نظر آتے ہیں، چونکہ ماضی میں الیکشن کمیشن کبھی اتنا متحرک نظر نہیں آیا لہٰذا پہلی بار متحرک ہوا تو اُنگلیاں اُٹھنے لگ گئیں۔ ملک بھی اپنا، ادارے اور سیاسی لوگ بھی اپنے، اِس لئے سبھی کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کرنا چاہیے مگر دھڑکا یہی ہے کہ جو کھچڑی پک رہی ہے وہ زودہضم نہیں ہوگی اور بالآخر وہی ہوگا جو ایسی کھچڑی کھانے کے بعد ہوتا ہے اور ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے۔ بلاشبہ ٹربیونلز نے ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر ایک جماعت کے اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے ہیں لیکن دوسری طرف سے تاثر یہی دیا جائے گا کہ اُن کو زیر عتاب رکھاگیا ہے، اور یہ لیول پلے فیلڈ نہیں ہے، انہیں انتخابی عمل سے باہر کیا جارہا ہے۔ اب اِس تاثر کو کیسے اور کس نے زائل کرنا ہے ہم نہیں جانتے، مگر ’’کھچڑی‘‘ میں جو مصالحے شامل کئے جارہے ہیں اور جو اجزا ترکیبی ہیں اُن سے کوئی منفرد ہی چیز سامنے آئے گی جو شاید کسی کے لئے بھی زود ہضم نہ ہو۔ بچپن سے ہم سنتے آئے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو ملک ترقی کرے گا، مہنگائی کم اور روزگار کے مواقعے زیادہ ہوں گے، اب بھی یہی سبق دھرایاجارہاہے ، مگر ماضی اور حال کا موازنہ کریں تو سیاسی عدم استحکام ہی نظر آتا ہے، سیاسی جماعتیں ایک سمت منہ کرکے لاڈلہ، مہا لاڈلہ، سُپرلاڈلہ جیسی گردانیں کررہی ہیں یہ انتخابی عمل کو ابھی سے مشکوک اور جانبدار بنانا نہیں تو اور کیا ہے، اور ساتھ میں بلے والے بھی شامل ہوگئے توپھر عام انتخابات کے بعد سیاسی استحکام آئیگا؟ سوچئے اور تشویش میں مبتلا ہوں۔