آج کے کالممحمد اکرم

چودھری محمد سرور سے ایک ملاقات

محمد اکرم

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، سینئر صحافی فضل حسین اعوان صاحب، عقیل انجم اعوان صاحب ، بدرسعیدصاحب ،افتخار خان اورمیں ناچیز شام کے وقت جم خانہ کلب اکٹھے تھے۔دوران گفت گو افتخار خان صاحب کو ایک دو کالز موصول ہوئیں ۔ملاقات کے بعد جب ہم لوگ اپنے اپنے گھروں کوجانے لگے تو افتخار خان صاحب نے کہا کہ کل(جس روز اکٹھے تھے اس سے اگلے روز) سابق گورنر چودھری محمد سرور صاحب کے ساتھ ان کے گھر ملاقات کے لئے جانا ہے۔ بدرسعید صاحب اور عقیل انجم اعوان صاحب نے اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے تو انکار کردیا۔میں اور فضل حسین اعوان صاحب نے حامی بھر لی چنانچہ افتخار خان صاحب گیارہ بجے چودھری محمد سرور کی رہائش گاہ پر پہنچنے کا کہہ کر گھر کی جانب روانہ ہوگئے کہ اس ملاقات کے حوالے سے میں نے پاکستان میڈیا رائٹرز کلب کے باقی ایگزیکٹو ممبران سے بھی رابطہ کرنا ہے۔اگلی صبح افتخار خان چیئرمین پاکستان میڈیارائٹرز کلب کی قیادت میں ایگزیکٹو ممبران فضل حسین اعوان،ندیم نظر، طاہر تبسم درانی،محمد ہاشم،توقیر ساجد کھرل،محمد اکرم، صفیہ طاہر، نبیلہ اکبراور عمار خان چودھری محمد سرور کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے جہاں پر ان کے پرسنل اسسٹنٹ نے استقبال کیا۔
18اگست 1952ء کو پیرمحل میں پیداہونے والے چودھر ی محمد سرور کی زندگی کا زیادہ تر حصہ برطانیہ میں گزربسر ہوا جہاں وہ بھرپور کاروباری زندگی میں مصروف عمل تھے۔ مختلف ادوار میں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے قریباً تیرہ سال گلاسکو مرکز کی لیبر پارٹی کی طرف سے نمائندگی کی۔انھیں برطانوی پارلیمان کے پہلے مسلم رکن کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستان کے لئے ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔ چودھری محمد سرور مسلم فرینڈآف لیبر کے بانی چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔جتنا عرصہ وہ برطانیہ میں قیام پذیررہے انھوں نے برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔ انھوں نے پاکستان کی کمیونٹی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔وطن عزیز سے باہر رہنے کے باوجود ان کے اندر پاکستان اور پاکستانی عوام کی محبت جاگزین تھی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے باہر رہتے ہوئے بھی پاکستان کے لئے بہت کچھ کیا۔
برطانیہ کے اندر ان کی گراں قدر خدمات کو سراہتے ہوئے 2013ء میں جب پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت تھی تو چودھری محمد سرور کو گورنر پنجاب کا قلم دان سونپ دیا گیا۔وہ 2015ء تک مسلم لیگ(ن) کے گورنر پنجاب رہے۔ 2015ء میں بعض وجوہات کی بنا پر انھوں نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس کے بعدجب 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی دوبارہ چودھری محمد سرور کو گورنر پنجاب بنادیا گیامگر ان کے اور پاکستان تحریک انصاف میں ہم آہنگی نہ ہو سکی تو انھوں نے 2022ء کو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ملنے والے گورنر کے عہدے کو بھی خیرآباد کہہ دیا۔چودھری محمد سرور نے جس طرح برطانیہ کے اندربیش قدر سماجی خدمات انجام دیں وہ ایسے ہی اپنے پاکستان کے اندر بھی گورنر کے عہدے پر رہتے ہوئے اپنے وطن اور قوم کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر انھیں موقع نہ مل سکا۔
ملاقات کے دوران انھوں نے پرانے اور نئے پاکستان کی طرزسیاست پر بہت ساری یادیں شیئرکیں۔انھوں نے بتایا کہ پرانے پاکستان اور نئے پاکستان میں بس پرانے اورنئے ’’لفظ‘‘ کا ہی فرق ہے باقی سب کچھ ویسے کاویسے چل رہا ہے۔پاکستان اور پاکستانی عوام کے حالات جوں کے توں ہیں بلکہ پرانے پاکستان میں پھر بھی حالات قدرے بہتر تھے۔پرانے پاکستان میں انفراسٹرکچر پر جو کام ہوا پاکستان تحریک ِ انصاف کے دورِ حکومت میںاس کی پہلے سے بھی بری حالت ہوگئی ہے۔صرف لاہور کو ہی دیکھ لیں تو ہرطرف گندگی کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔باقی شعبہ ہائے زندگی بھی ابتری کا شکار ہیں۔انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ برطانیہ سے پاکستا ن اور اپنی عوام کے لئے بہت جو کچھ کرنے کا خواب لے کے آئے تھے وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔جس کا انھیں پوری طرح ادراک ہو چکا ہے۔ اب سیاست میں ان کا کیالائحہ عمل ہے کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فی الحال ان کی کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف رجحان نہیں ہے۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم پرانے اور نئے پاکستان سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔پرانے اور نئے پاکستان کی طرزِ سیاست نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اب وقت ہے کہ پاکستان کے لئے کچھ کیاجائے، پاکستان کی عوام کے لئے کچھ کیا جائے۔ہمیں ماضی سے سبق حاصل کرکے آگے بڑھنا چاہیے اور مستقبل میں ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ اب گالم گلوچ کی سیاست کو ختم ہونا چاہیے۔ایک دوسرے پر الزام تراشی کا خاتمہ کرکے مل بیٹھ کر ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔ مستقبل میں کوئی نئی سیاسی جماعت بنانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایاکہ فی الحال ایسا کچھ نہیں سوچا گیا البتہ دوستوں سے مشورے ضرور ہوتے رہتے ہیںکہ آئندہ سیاست کے حوالے سے کیا لائحہ اپنایا جائے گا۔ان کا لائحہ عمل سامنے آگیا ہے انھوں نے باقاعدہ طورپر ق لیگ کو جوائن کر لیا ہے۔میرے خیال میں ق لیگ ہی ایسی جماعت تھی جس میں انھیں کوئی بہتر پوزیشن مل سکتی تھی ۔امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ق لیگ میں شمولیت کے بعد ملک و قوم کی بہتر طریقے سے خدمت کر سکتے ہیں۔
ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ وہ سیاست کے میدان میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نگران ملک معراج خالد سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ معراج خالد کی ملک اور قوم کے لئے بہت ساری سماجی اور سیاسی خدمات انجام دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح سے ملک معراج خالد وزیراعظم پاکستان بننے سے قبل اور بعد میں سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ لیا۔ چودھری محمد سرور نے بھی معراج خالد کی شخصیت سے اثر لیتے ہوئے پاکستان کے سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔چودھری محمد سرور فلاحی کاموں کے لئے سرور فائونڈیشن بھی بنایا ہے جس پر تفصیل سے پھر کبھی لکھیں گے۔

جواب دیں

Back to top button