آج کے کالم

ادب سے محروم معاشرہ

مشتاق قمر

بہت سے احباب کے نزدیک ادب کا معاشرہ میں کوئی خاص مقام نہیں لیکن آج آپ کو چند دانشور اور اہل علم جو نظر آتے ہیں اور معاشرہ میں جو ٹھہرائو ہے ہر چیز کی ایک ترتیب ہے اس کے پیچھے وہ ادبی محافل ہیں اور وہ سکول کی ادبی کمیٹی کے پروگرام ہیں جو تربیت میں ایک اہم مقام رکھتے تھے ،جب سے سکول کالج کی تعلیم میں غیر نصابی سرگرمیاں رخصت ہو ئی ہیں، معاشرہ میں بے ترتیبی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم نے کمپیوٹر پر آگاہی کو علم کا نام دے دیا ہے جبکہ معلومات حاصل کرنا ایک الگ بات ہے جبکہ علم حاصل کرنا ایک الگ بات ہے۔ اسی طرح ادبی تنظیمیں نوجوان نسل اور علم حاصل کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک اعلیٰ شخصیت کے حامل شہری بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ وہ علم اور ادب کے مرکز کچھ تو ختم ہو گئے ہیں اور کچھ اس مہنگائی کے خوف نے ختم کر دیئے ہیں۔ شہر کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہائوسنگ سکیموں نے ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ چہل قدمی اور پیدل چلنے کا رواج ختم ہو گیاہے ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کے طریقے بدل گئے ہیں جس سے الفت اور محبت میں فرق آ گیا ہے۔ اندرون شہروں میں لوگ گھر کے باہر چونترے پر بیٹھ کر علم ادب اور سیاست پر نظر رکھتے اور شائستہ گفتگو کرتے تھے اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط نہیں کرتے تھے۔ آزادی سے جینے کے ڈھنگ تھے۔ اُستاد کو راستے میں آتے دیکھ کراحترام سے دوسری جانب ہو جاتے۔ سائیکل پر آتے ہوئے دیکھ کر سائیکل سے اُتر جاتے اور سلام کہتے۔ ایسے خوبصورت معاشرہ کواس جدید سوشل میڈیا کی نظر لگ گئی۔ ہم نے فیس بک کی شاعری کو دنیا کی سب سے بڑی شاعری کا درجہ دے دیا ہے۔ استاد شاعروں سے رغبت ختم ہو گئی ان کے قریب بیٹھنے کو وقت کا ضیاع جانتے ہیں۔ جب ہماری ترجیحات ہی اور ہوں تو ہم آگے کی بجائے پیچھے نہ جائیں توکہاں جائیں گے۔
اس سارے نظام میں اگر کہا جائے کہ ہمارے نوجوان بدل گئے ہیں یا خراب ہو گئے ہیں تو یہ قطعاً ایسا نہیں ہمارے والدین اور بڑوں نے بھی اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ ہم نے گھروں کو مارکیٹوں میں بدل دیا، ہمارے گھروں سے بیٹھک کا تصور ختم ہو گیا۔ شادی بیاہ میں رشتے دار اکٹھے ہوتے، ملتے جلتے آج چاچا، ماموں اور پھوپھو جیسے رشتے انکل اور کنزن میں بدل گئے۔کیا ہم اپنی شناخت نہیں کھو رہے؟ہم جان بوجھ کر اپنی زبان، کلچر اور تہذیب کو دفن کر رہے ہیں جب بچپن میں کتاب کی بجائے موبائل دیں گے اس سے وقتی طور پر ہم اپنے آپ کو ریلیف تو دے دیتے ہیں مگراس سے ہمارا سفر رک جاتا ہے ۔ ہماری منزل اور بھی دور ہو جاتی ہے۔ جہاں فاسٹ فوڈ اور بوتیک ہوں وہاں ثقافت دفن ہو جاتی ہے۔ ہم غیروں کی تقلید میں یہ بھی بھول رہے ہیں کہ ہم نے بھی بوڑھے ہونا ہے۔ آگے ایک اور نسل آئے گی جس نے ملک اور تہذیب کی رکھوالی کرنی ہے۔ ہم مسلسل ہجوم میں بدل رہے ہیں۔ وسائل چند خاندانوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ مسائل گلی محلوں اور چاردیواری کے اندر تک آ گئے ہیں۔ جس سے نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔ مفاد کے رشتے بنائے جا رہے ہیں جس سے عدالتوں اور کچہریوں میں طلاق کی شرح بڑھ گئی ہے۔ نوجوان نسل کو گائیڈ کرنے والا نہیں، سوشل میڈیا جہاں ہمیں ایک ڈوری میں باندھ کر گھسیٹ رہا ہے وہاں ہم غافل بن کر بہت نقصان کر رہے ہیں۔ میرٹ کا ایک لفظ رہ گیا ہے، میرٹ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ جو دوست یہ کہتے ہیں کہ ادب نے کیا دیا تو آج اس جلدی اور شارٹ کٹ زندگی نے کوئی منیر نیازی پیدا نہیں کیا ، کوئی احمد فراز، فیض احمد فیض کا جنم نہ ہو سکاکیونکہ ہم ایسے ادب کو پروان چڑھا رہے ہیں جو وقتی تسکین تو دیتا ہے مگر ہماری تربیت کا رخ موڑ رہے ہیں۔ جب تک سکولوں اور کالجوں میں ایسے نوجوان اساتذہ نہیں لے کر آتے جو کتاب سے محبت کریں اور سکول ٹائم میں موبائل سے دور رہیں۔ اس وقت تک ہم اپنی نوجوان نسل کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے۔ ذرا سوچیں آج کوئی ڈاکٹر عبدالسلام یا ڈاکٹر عبدالقدیر پیدا کیوں نہیں ہو رہا یا اگر ہو بھی رہا ہے تو اس کی اپروچ ان کے برابرکیوں نہیں اس کے اثرات معاشرے میں پیدا کیوں نہیں ہو رہے۔
آج بھی بوڑھے والدین پریشان حال ہیں علم بھی ہے، دولت بھی ہے مگر احساس اور تربیت نہیں۔ آج بیمار بوڑھے والدین کی خدمت کرنے کی بجائے ایک ملازم رکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔بوڑھے ماں باپ ڈیوڑھی میں یا کمرے میں جو ان بچوں کی راہ دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید آج ہی آ جائیں اور کم از کم اپنی شکل ہی دیکھا دیں۔ والدین آپ سے دولت یا کسی بڑے فرمائشی پروگرام کے متمنی نہیں وہ صرف اور صرف آپ کے ہاتھوں کا لمس چاہتے ہیں آپ کی خوشبو سونگھنا چاہتے ہیں۔ اس چھوٹے سے عمل سے ان کی آدھی بیماری دور ہو جاتی ہے۔ اسی لئے میرے نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ بیمار کی بیمار پرسی کریں، بوڑھے والدین کی خدمت کریں، ان کے قریب بیٹھیں تاکہ ان کے تجربے کی بنیاد پر آپ اپنی زندگی کا راستہ تعین کر سکیں۔ ایک زمانہ تھا لوگ استادوں سے ملتے تھے ان کے قریب بیٹھ کر ان کی باتیں سنتے۔ آج زندگی کے طور طریقے بدل گئے ہیں۔ کتاب اور اساتذہ سے دور ہو گئے ہیں۔ ہمارے بے شمار فالورز ہیں، دکھ میں ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ زندگی غریب آدمی کے لئے اتنی مشکل ہو گئی ہے کہ آج زندہ رہنے سے مرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہماری غلط ترجیحات اور غلط منزل کا تعین ہمارے سفر کو طویل اور مشکل بنا رہے ہیں۔ ہمارے ملک کو اس وقت ایک ایسے رہبر کی ضرورت ہے جو ہجوم کو قوم بنائے اور ملک کو اس مشکل سے نکالنے میں اہم رول ادا کرے۔
پاک برٹش آرٹس ایک فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو معاشرے کو بہتر بنانے میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ گذشتہ دنوں معروف شاعرہ فرحانہ عنبر کے ساتھ ایک شام منائی گئی جس کی صدارت زاہد بخاری نے کی۔ مہمان خصوصی معروف شاعر وحید ناز تھے ، ان کے ساتھ عروج زیب، عمران تنہا بھی مہمانوں میں خصوصی شریک تھے۔ فرحانہ عنبر مترنم کلام پڑھنے میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔ نوجوان نسل کی نمائندہ شاعرہ کے طور پر پاکستان میں جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاک برٹش آرٹس فلاحی کاموں میں دنیا بھر میں لوگوں کو آسودگی دینے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر یونس امین شیخ اور محمد علی صابری نے مل کر غریب اور مستحق لوگوں کو تعلیم اور شادیوں میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں جس سے لوگ انہیں دعا نہیں دیتے ہیں دراصل ادب ہمیں جہاں شعور دیتا ہے وہاں احساس بھی پیدا کرتا ہے اپنے ہمسائے اور حلقہ احباب کے ساتھ زندگی کیسے گزارنی ہے یہ سب ادب اور ادیب سیکھاتا ہے۔ ہماری زندگی سے بے شمار مسائل کی نشاندہی ایک شاعر اور ادبی اپنی تحریروں کے ذریعے کرکے حکام بالا کو متوجہ کراتا ہے۔ اس لئے جو لوگ کہتے ہیں کہ ادب کیا کرتا ہے، ادب ہی ہمیں بہترین انسان بنانے میں اپنا کردارادا کرتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button