دسمبر کے نام میرا پیغام

منزہ جاوید
یوں تو سارے مہینے دنوں کی گنتی ہیں پس اس کے علاوہ کچھ نہیں۔لیکن یہ دن یہ ہمارے لئے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے اتار چڑھاؤ ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسے ان مہینوں سے سردی، گرمی، خزاںاور بہار کے موسم منسوب ہیں ایسے ہی ہماری کچھ یادیں ان سے جڑ جاتی ہیں کچھ خوشیاں کچھ غم، ان کی تاریخوں سے ایسے جڑ جاتے ہیں کہ جیسے ہی وہ تاریخ آتی ہے ہماری یادوں کے دریچے کھلنے لگتے ہیں ۔
کوئی اپنی خوشیاں مناتا ہے، سارا دن اس دن کو یاد گار اور پہلے سے بہتر کرنے میں لگ جاتا ہے اور کوئی اس دن کی تلخی کو مٹانے کے لئے تدارک کرتا ہے کوئی سارا دن اس تاریخ کو سوگ منا کر کرتا ہےیہ گزرتے وقت بھی بہت ظلم ہوتے ہیں ان کے نہ دل ہوتے ہیں نہ انکھیں یہ تو پس گزرنے کے لئے ہوتے ہیں اس سال کی ریل گاڑی کے بارہ ڈبےبن دیکھے بن سنے۔ کہیں پھول نچھاور کرتے ہیں تو کہیں اپنی مسلسل رفتار میں سب کچل کر رکھ دیتے ہیںکوئی ان سے برسائے پھول اٹھاتا خوشیوں سے سرشار اس مہینے کے آنے کا شکر ادا کرتا ہے اور کوئی لہولہان حسرتوں سے بھرے بوجھل دل سے گزرتے پل کو دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
یہ ماہ سال وزن نہ رکھتے ہوئے بھی بعض مرتبہ بہت وزنی ہو جاتے ہیں وقت کی ریل مہینوں سے بندھی روزازل سے فراٹے بھرتی چلتی جارہی ہے میرے بس میں ہو تو میں اس کے ہر ڈبے میں پھول بھر دوں ،مرادیں رکھ دوں، خوشی کے تحفے رکھ دوں، دل کا سکون قرار رکھ دوں، آنکھوں کی چمک رکھ دوں۔
اے وقت کی چلتی دھارا! اے فراٹے بھرتی زندگی کے ریل میں پیغام ہے تیرے لئے سن
اے ماہِ سال کی ریل تو اپنے اندر خوشیاں بھر لے دنیا میں غم بہت زیادہ ہو چکے ہیں آہیں سسکیاں بہت ہیں تو بانٹنا چاہتی ہے تو سب میں اب کہ خوشیاں بانٹ دے، سب کے چہرے خوشی سے کھل جائیں دنیا میں امن ہو جائے، کوئی کسی سے نفرت نہ کرے، کوئی کسی کو قتل نہ کرے، کوئی کسی کی حق تلفی نہ کرے، ہر طرف محبت بانٹ، خوشیاں بانٹ کہ تیرے آنے کی خبر سے دل جھوم جائیں۔ تیرا وجود سکون کا باعث بنا رہے۔ اے دسمبر تو جنوری سے جب بھی ملے اسے محبت کا امن کا خوشیوں کا پیغمبر بنا کر بھیجنا کہ جنوری کے آنے سے ہمارے دکھوں کا مداوا ہو سکے ۔
کیوں محبت میں خسارے ہی ہوا کرتے ہیں
کیوں جفا کار ہمارے ہی ہوا کرتے ہیں
ساتھ چلنے کا تعلق ہے، چلو مان لیا
پر کنارے تو کنارے ہی ہوا کرتے ہیں
کیا ضروری ہے کہ اک چاند کے پیچھے بھاگیں
جب اماوس میں ستارے ہی ہوا کرتے ہیں
کیا کسی اور سہارے کی تمنا کیجے
دل کے جذبے بھی سہارے ہی ہوا کرتے ہیں
اہلِ دل، دل کے سخی ہیں منزہ
سب نے کچھ خواب تو وارے ہی ہوا کرتے ہیں