سیاست میں منشورکی اہمیت
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عام انتخابات کے لئے 10 نکاتی منشور کا اعلان کردیاہے۔غریبوں کے لئے 300 یونٹ تک بجلی، کسان کارڈ اور علاج کی سہولت کی مفت فراہمی، 30 لاکھ گھروں کی تعمیر،پانچ سال میں تنخواہیں دگنی ، ہر بچےکی تعلیم تک رسائی یقینی بنائی جائے گی۔پیپلز پارٹی سے قبل استحکام پاکستان پارٹی بھی اپنے منشور کا اعلان کرچکی ہے ،اِن کے منشور میں کہاگیا ہے کہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی معاشرے میں ڈھالنے، ختم نبوتؐ پر موثر قانون سازی، مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے ساتھ معاشی اصلاحات پر بھی کام، زرعی اصلاحات کے تحت 12 ایکڑ تک زرعی اراضی رکھنے والے کو مفت بجلی کی فراہمی، مزدور کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ 50 ہزار روپے ماہوار، شہریوں کو 300 یونٹس تک بجلی مفت، کچی آبادیوں کے لئے مالکانہ حقوق، شہریوں کے لئےاپارٹمنٹ بلڈنگز کے کم لاگت رہائشی منصوبے، موٹر سائیکل سواروں کو پٹرول کی آدھی قیمتوں پر فراہمی، ایئر کنڈیشنڈ پبلک ٹرانسپورٹ، بزرگ شہریوں، خواتین اور سٹوڈنٹس کے لئے مفت سفری سہولتیں ، ملک کے لئے آزادانہ اور خودمختار خارجہ پالیسی،اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور پاکستان میں ان کی جائیدادوں کے تحفظ و انصاف کی فراہمی شامل ہے۔اسی طرح یوتھ اور خواتین کے لئے آسان شرائط پر بلا سود قرضوں و ملازمتوں کی فراہمی، ٹیکنیکل مراکز کا قیام، نئے سرکاری میڈیکل و انجینئرنگ کالج کا قیام، بیرون ملک سکالر شپ کی فراہمی منشور کا حصہ ہو گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی پاکستان اور استحکام پاکستان پارٹی کے علاوہ ابھی کسی اور قابل ذکر سیاسی جماعت نے اپنا منشور پیش نہیں کیا یہاں تک کہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے منشور بھی ابھی سامنے نہیں آئے۔ لہٰذا سیاسی جماعتیں بغیر منشور کے اپنی انتخابی مہم چلارہی ہیں البتہ کاغذی کارروائی کے طور پر منشور کسی موقعہ پر پیش کردیاجائے گا۔ ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں کسی بھی سیاسی جماعت کی ماضی کی کارکردگی اور نئے چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی کے ساتھ نیا منشور ووٹرز کو متاثر کرتا ہے، ووٹرز تمام جماعتوں کے منشور دیکھنے کے بعد اچھے منشور اور ماضی کی اچھی کارکردگی والی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں، چونکہ یہاں طرز سیاست اور جمہوریت ہی منفرد اور اپنی مثال آپ ہے لہٰذا یہاں منشور کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے اور نہ ہی کم تعلیم ووٹرز منشور کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، منشور کی کاپیاں اتنی محدود ہوتی ہیں کہ وہ ووٹرز تک پہنچ ہی نہیں پاتیں البتہ قومی ذرائع ابلاغ یا سیاست دانوں کی تقاریر کے ذریعے چند چیدہ چیدہ نکات سامنے آتے ہیں۔ چونکہ ہمارے یہاں منشور کو سیاسی پارٹیاں اہمیت دیتی ہیں اور نہ ہی ووٹرز بلکہ منشور قانونی ضرورت نہ ہو تو شاید منشور کی تیاری میں اتنا تردد کیا ہی نہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں آسمان سےتارے توڑ لانے کے علاوہ باقی سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قریباً پچاس سال قبل روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا اور اِس کو اپنے منشور میں سب سے پہلے رکھا، مرکز میں تین بار برسر اقتدار آنے کے باوجود آج تک پیپلز پارٹی اُس پچاس سال پرانے وعدے کو پورا نہیں کرسکی، پیپلز پارٹی اگر مرکز میں نہ بھی رہی تو کم ازکم سندھ کی سطح تک حکمران ضرور رہی مگر سندھ میں بھی روٹی، کپڑا اور مکان ہر خاندان کو فراہم نہ کرسکی، چونکہ آج کے معاشی حالات میں غریب اپنی پہچان کھوچکا ہے، جو کبھی صدقہ خیرات کرتے تھے اب وہ خود صدقہ و خیرات لینے والوں میں شامل ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا پچاس سال نعرہ ہر سیاسی جماعت نے اپنالیا ہے کیونکہ سیاست دان سمجھ دار اور عوام کی دُکھتی رگ کو سمجھتے ہیں اِس لئے انتخابات ہوں یا نہ ہوں وہ وقتاً فوقتاً روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر پاکستان کی اکثریتی عوام کی دُکھتی رگ دباتے رہتے ہیں مگر آج تک کوئی بھی پارٹی یہ دعویٰ نہیں کرسکی کہ اُس نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ پوراکردیا ہے۔ ماضی میں عوام کو دلفریب وعدوں اورنعروں میں اُلجھاکر اقتدار کے مزے لئے جاتے رہے اور جاتے جاتے پلٹ کر کہتے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیاگیا۔ اب تک پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد تین سو یونٹ تک مفت بجلی دینے کا اعلان کرچکی ہیں حالانکہ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کے بعد کسی بھی منتخب حکومت کے لئے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں ہے لیکن چونکہ عوام کی دُکھتی رگ ہے اِس لئے دبائی جارہی ہے۔ ابھی ایک دن پہلے ہی عالمی بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نو منتخب حکومت تمام معاشی اصلاحات پر من و عن عمل نہیں کرے گی بلکہ جو ابتک اصلاحات دبائو ڈال کر کرائی جاچکی ہیں وہ بھی واپس لے لی جائیں گی لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ جب بھی آئی ایم ایف سے رجوع کیاجائے پہلے سے مزید کڑی شرائط لاگو کی جائیں گی اور نتیجے میں عوام کا ہی کچومر نکلے گا۔ چونکہ کسی سیاسی پارٹی کے پاس ماضی قریب میں اُس کے بڑے کارناموں کا ذکر نہیں ہے اِس لئے سبھی جماعتیں یہی کہہ رہی ہیں کہ اُنہیں اقتدار کا موقعہ دیا جائے تو وہ عوام کی زندگی بدل دیں گے، مگر عالمی بینک کے خدشات کو بھی مدنظر رکھاجائے کہ ہمارے پاس زرمبادلہ نہیں ہے، برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں، مہنگی ترین بجلی اور گیس کے ساتھ برآمدات کا تصور ہی مذاق سے کم نہیں۔ ہمارے رہبروں نے ملکی ضرورت سے کہیں زیادہ بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کئے ہوئے ہیں وہ بجلی بنتی بھی نہیں اور اربوں کھربوں روپے بند کارخانوں کے مالکان کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ ایران اپنی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھاکر ہمارا منتظر ہے لیکن ہم امریکہ کے ڈر سے ایران سے سستی گیس لینے کی بجائے عالمی منڈی سے مہنگی ایل این جی خرید کر عوام پر ظلم ڈھارہے ہیں۔ اِس لئے اب سیاست دانوں کو بھی چاہیے کہ وہ چھوٹے چھوٹے اور مختصر مختصر وعدے کریں جو اُن کے لئے قابل عمل بھی ہوں اور اگلی بار جب وہ انتخابات کے لئے رابطہ عوام کریں تو بتاسکیں کہ فلاں وعدہ ہم نے پوراکردیا ہے۔ جیسے تین سو یونٹ تک مفت بجلی کا نعرہ لگایا تو جارہا ہے کیا آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی ادارے کسی بھی منتخب حکومت کو ایساکرنے دیںگے؟ منتخب حکومتیں تو آئی ایم ایف کے دبائو پربجلی، پٹرول، گیس اور نجانے کیا کیا مہنگی کرتے اور اپنی معذوری ظاہر کرتی ہیں کہ ہمیں قرض لینا ہے اِس لئے آئی ایم ایف کا مطالبہ ماننا ناگزیر ہے۔ بہرکیف سیاست دانوں کو قابل عمل منشور پیش کرنا چاہیے اور کوئی ایسا نظام بھی ہونا چاہیے کہ اُن سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنے منشور کے کس کس نکتے پر عمل کیا ہے، کیونکہ اسی کی بنیاد پر ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کیاجاتا ہے لہٰذا یہ حساب کتاب بھی ضرور ہونا چاہیے کہ آپ نے اقتدار کے اتنے عرصے میں عوام سے کیے کتنے وعدے پورے کیے۔