انتخابات اور ملک کی سیاسی صورتحال

رائو غلام مصطفی
ملک میں عام انتخابات 8 فروری 2024ء کو ہونے جا رہے ہیں۔انتخابات کے شیڈول کا باقاعدہ اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جاری کر دیا ہے۔اب انتخابات نہ ہونے کے متعلق ابہام اور قیاس آرائیاں ختم ہو چکی ہیں۔ملک میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس قریباً ڈیڑھ سو سے زائد سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیںلیکن ملک میں موجود سینکڑوں سیاسی جماعتیں ہونے کے باوجود صرف چند بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جوملک پر حکمرانی کرتی چلی آ رہی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، اے این پی،مسلم لیگ ق،جے یو آئی(ف) قابل ذکر ہیں جو اپنا ووٹ بنک رکھتی ہیں۔اگر دیکھا جائے تو ملک میں اس وقت تین بڑی قومی سیاسی جماعتیں ہیں جو آئندہ عام انتخابات میں ووٹ کے دوام سے حکومت میں آسکتی ہیں ان میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں۔سیاسی جماعتوں کا وجود ان کے منشور کا مرہون منت ہوتا ہے کیوں کہ با شعور ووٹر ہمیشہ منشور کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتا ہے۔منشور سیاسی جماعتوں کے وہ منصوبے، پروگرام اور وسیع تر پالیسی موقف ہیں جن پر وہ عمل کرنے کا وعدہ کرتی ہیں۔ تاکہ انتخابات میں وہ ووٹ حاصل کر کے اقتدار میں آسکیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں عام طور پر اپنے منشور انتخابات والے سال کے دوران جاری کرتی ہیں۔ یہ ایک بنیادی نوعیت کی دستاویز ہے جس کی روشنی میں برسراقتدار آنے پر اس جماعت کی کارکردگی کاتجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری سیاست میں رائے دہندگان توقع رکھتے ہیں کہ سیاسی جماعت اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرے کیونکہ وہ ان پروگراموں اور پالیسیوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جنہیں اقتدار میں آنے پر یہ جماعت عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک باضابطہ منصوبہ رکھا جائے اور اسے عملی جامہ پہنانے کا عہد کیا جائے جس کی روشنی میں وہ اس جماعت کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کر سکیں۔ اس لئے منشور محض لفاظی اور بڑی بڑی باتوں کا نام نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور باضابطہ عہد پر مبنی دستاویز ہے سیاسی جماعت کا منشور ایک دستاویز ہے جو پارٹی کے وژن، اہداف، پالیسیوں اور ملک کے لئے منصوبوں کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ یہ ووٹروں کو یہ بتانے کا ایک طریقہ ہے کہ پارٹی کس کے لئے کھڑی ہے اور اگر وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو وہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک منشور ایک سیاسی جماعت، جمہوریت اور عوام کے لئے کئی وجوہات کی بنا پر ضروری ہوتا ہے، کیونکہ یہ پارٹی کو اپنی شناخت، نظریے اور ایجنڈے کی وضاحت کرنے اور خود کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کرنے میں مدد کرتا ہے۔
یہ ووٹروں کو پارٹی کے وعدوں اور تجاویز کی بنیاد پر باخبر انتخاب کرنے اور پارٹی کو اس کی کارکردگی کے لئے جوابدہ ٹھہرانے کی اجازت دیتا ہے۔ انتخابات کا بگل بج چکا ہے لیکن تاحال کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنا منشور عوام کے سامنے نہیں رکھا۔اور یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک اپنے دئیے گئے منشور پر من و عن عمل نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت نے ملک و ملت کے مفادات کو عزیز تر جاننے کی بجائے اپنے اقتدار، اختیارات اور مفادات کے تحفظ کو عزیز تر جانا۔
پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر کسی نے سیاست کے جمودی دھارے کو موڑ کر رکھ دیا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں وہ عمران خان کی شخصیت ہے انتخابات کے نتائج سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو اس وقت ان کے علاؤہ کوئی پاپولسٹ سیاستدان نہیں ہیں۔سیاسی تاریخ میں ان کے سیاسی کردار کو کل کیسے جانچا جائے گا یہ آنے والا وقت ضرور طے کر دے گا۔ملک میں سیاسی نشیب و فراز کے در پر کھڑے ہو کر دیکھا جائے۔جب ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب کی آمریت کو چیلنج کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی داغ بیل ڈالی تھی اس وقت پاکستان میں گہری طبقاتی و علاقائی تفریق پیدا ہوچکی تھی۔ دنیا بھر میں انقلابات کے سلسلے کے ساتھ پوری دنیا کی نوجوان نسل نظام کہن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی تھی۔ یوں 1973ء کے آئین والی جمہوریت وجود میں آئی۔ پھر بھٹو مخالف دائیں بازو کی رجعت پسند قوتیں جنرل ضیاالحق کی سرپرستی میں متحرک ہوئیں اور رد انقلاب کامیاب رہا۔جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لا میں سیاسی تقسیم بھٹو اوربھٹو مخالف تھی۔ پھر رد انقلاب کی صورت میں جب خاندانی سیاست کی پروردہ قوتیں مسلم لیگ میں جمع ہوئیں اور روایتی دکاندار سیاست دان بن کر سامنے آئے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد عوامی وجمہوری حقوق کی سیاست کا باب ختم ہوا۔ اس کے بعدنواز شریف اور اینٹی شریف سیاست کا دور شروع ہوا دولت مند سیاستدان آئیڈیل بن کر سامنے آیا۔ فیصلہ سازوں نے کبھی پیپلز پارٹی‘کبھی مسلم لیگ ن،کبھی مسلم لیگ ق اور کبھی تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتوں کے غبارے میں ہوا بھری اور عوام کے ساتھ سیاست اور جمہوریت کی آڑ میں ایسا ڈرامہ رچایا گیاکہ عوام عوامی و جمہوری حقوق سے محروم ہو کر رہ گئی۔سیاسی و جمہوری اقدار کا جیسے جنازہ نکالا گیا وہ بھی ملکی سیاست کا سیاہ باب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب میاں محمد نواز شریف نے مقتدرہ کی پنجالی توڑی تو وہ پنجاب کا ہیرو بن کر اُبھرا اسی طرح فیصلہ سازوں نے عمران خان کو اقتدار دیا اور پھر اقتداری ایوان سے نکال کر پی ڈی ایم کو اقتدار سونپنے کا راستہ ہموار کیا۔سولہ ماہ کی حکومت میں ملک کی معیشت اور سیاست عدم استحکام کا شکار رہی اور اس کے اثرات براہ راست عام آدمی کے معاشی حالات پر اثر انداز ہوئے۔اگر دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کا سولہ ماہ کا اقتدار عوام میں رتی بھر بھی مقبولیت نہ پا سکا عام آدمی کی زور آور مہنگائی سے نسیں بند ہو گئی۔یہی حالات نے عمران خان کو ایک بار پھر مقبول کر دیا اور آج موجودہ سیاست کے لئے عمران خان ناگزیر بن چکا ہے۔بظاہر حالات ایسے ہیں کہ فیصلہ ساز ایک سیاسی جماعت کو اقتدار سونپنے کا تہیہ کر چکے ہیں اور یہ تاثر عام عوامی حلقوں میں پایا جا رہا ہے۔ان حالات میں انتخابات ہونے سے قبل ہی متنازعہ بن چکے ہیں اور اس کا جواز موجودہ حالات پیدا کر چکے ہیں۔پانچ دہائیوں سے زائد زندگی گزر چکی ہے لیکن میں نے کبھی اپنی زندگی میں ہونے والے ایسے انتخابات نہیں دیکھے جس کی کوئی کریڈیبلٹی نظر نہیں آرہی جو انتخابی پراسیس سے قبل ہی عام آدمی کی نظر میں متنازعہ بن چکے ہیں۔حالات ایسے پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو کارنر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ہیں ایسے میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہو سکتا ہے۔لیول پلیئنگ فیلڈ تمام سیاسی جماعتوں کے لئے یکساں ہونی چاہیے تاکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اعتراض نہ ہو اور الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور انتخابات کو متنازعہ نہ بنا سکے۔ملک میں موجود نوجوان نسل کی ایک بڑی کھیپ ہے جو سیاست سے بیزار نظر آرہی ہے آج کا نوجوان ہمارا کل کا بیش بہا اثاثہ ہے جب ملک کا نوجوان ہی سیاسی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرے گااور ملک کے نظام سے لاتعلق ہو جائے گا تو وہ اپنے مستقبل کو کس نظر سے دیکھے گا؟