احکام ِ وراثت(2)

مولانا محمد اکرم اعوانؒ
(گذشتہ سے پیوستہ)
حصول معاش مرد کی ذمہ داری ہے:
اسلامی معاشرت میں اصولی طور پر روزی کمانا اور خاندان کو پالنا مرد کی ذمہ داری ہے اور خاتون خانہ کی ذمہ داری روزی کمانا نہیں۔خاتون خانہ کی ذمہ داری ہے کہ مرد جو مال کما کر لاتاہے اس کی حفاظت کرے اوراسے ضرورت کے مطابق خرچ کرے اور اسے ضائع ہونے سے بچائے۔چونکہ مرد کی ذمہ داری زیادہ ہے اس لئے اللہ کریم نے بیٹی کی نسبت بیٹے کا حصہ دو گنا رکھا ہے۔اللہ کے احکام میں جو حکمتیں پوشیدہ ہیںوہ اللہ کریم ہی جانتے ہیںاور اللہ کے ہرحکم میں انسانوں کے لئے بے شمار فائدے اور بڑی حکمتیں ہیں۔
جب اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں:
جس کی اولاد میں لڑکے نہ ہوں بلکہ صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دوسے زائد ہوں تو ترکے میں سے تیسراحصہ بچیوں کا ہے۔اور اگر صرف ایک بیٹی ہے تو جائیداد کا آدھا حصہ بیٹی کا ہو گا اور باقی نصف دیگر وارثان کا ۔دیگر وارثان میں مرنے والے کے والدین اور بہن بھائی شامل ہیں جو زندہ ہوں ۔اگر ماں باپ دونوں زندہ ہوںتو کل ترکے کا چھٹا حصہ ماں اور چھٹا حصہ باپ کو ملے گا۔اگراس کی اولاد ہے اور اگر اس کی اولادہے ہی نہیں والدین ہی رہ گئے ہیںتو پھر اس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا۔اگر مرنے والے کے ایک سے زیادہ بہن بھائی ہوںتو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
میت کے ذمے جوقرض ہے اس کی ادائیگی کے بعد اور جو وصیت ہے اسے پورا کرنے کے بعد وراثت کی تقسیم ہوگی۔تمہارے والدین یا تمہاری اولاد یہ تم نہیں جانتے کہ کس سے تمہیں فائدہ ہوگا۔یہ صرف اللہ جانتا ہے کہ والدین کا کردار کیا ہوگیا اور اولاد کا کردار کیا ہوگا۔لہٰذا اللہ کریم نے جس طرح تقسیم فرمائی ہے اسے فریضہ سمجھ کر پورا کیا جانا چاہئے اور کسی امید پر اللہ کے احکام تبدیل نہیں کرنے چاہئیں ۔ یہ امید نہ رکھی جائے کہ اگر میں اپنی ساری جائیدا د ماں کے نام کردوں تو یہ بہت فائدہ مندہ ہوگا یا والد کے نام کردوں تو مجھے زیادہ فائدہ ہوگا یا بیٹوں کو دے دوں یا بیٹیوں کو دے دوں تو زیادہ مفید ہوگا۔ فرمایا یہ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا رشتہ اس کے لئے پس مرگ مفید ہوگا؟ کس کا کیا کردار ہوگا۔ آج کیسا ہے کل کیسا ہوگا۔ زندگی میں پتہ نہیں ہوتا کون کیسا ہے آج کیا ہے کل کیا ہو جائے گا۔ آدمی بدل جاتے ہیں رشتے بدل جاتے ہیں امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ مرنے والے کو کیا خبر اس کے لئے کون بہتر ثابت ہوگا۔ کون اس کے لئے ایصال ثواب کرے گا کون اس کے گناہوں کی مغفرت کی دعا کرے گا، کون اس کے ترکے میں سے ملی رقم سے خرچ کر کے ایصال ثواب کرے کون اس جائیداد کو نیک اور جائز ضروریات پر لگائے گا۔ آدمی بدل جاتے ہیں رشتے بدل جاتے ہیں امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ مرنے والے کو کیا خبر اس کے لئے کون بہتر ثابت ہوگا۔کون اس کے لئے ثواب کرے گاکون اس کے گناہوں کی مغفرت کی دعا کرے گا،کون اس کے ترکے میں سے ملی رقم سے خرچ کرکے ایصال ثواب کرے گا کون اس جائیداد کو نیک اور جائز ضروریات پر لگائے گا اور کون اسے عیاشی میں اڑا دے گا۔ یہ سب کچھ کوئی انسان نہیں جانتا لہٰذا بڑا سیدھا سا معاملہ ہے۔ جو تقسیم اللہ کریم نے کی ہے وہ فرض ہے اسے ویسا ہی قبول کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ اللہ کریم ہر بات کو جانتاہے اور اس کے ہر حکم میں بے پناہ حکمتیں ہیں۔ مرنے والا تو بری الذمہ ہے وہ تو دنیا سے رخصت ہو چکا۔ جائیداد و مال کی تقسیم کرنے والے اگر نیکی کریں گے تو مرنے والے کو بھی نیکی کا اجر ملے گا لیکن اگر وہ غلط کام کریں گے اس دولت کا غلط استعمال کریں گے تو اس کا عذاب نہیں ہوگا۔ سو حقیقی زندگی کی طرف متوجہ رہنا چاہئے جو آخرت کی ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے وقتی طور پر رشتوں کا ایسا لحاظ نہ کیا جائے کہ اللہ کی تقسیم کوبدل دیا جائے جو ایسا کرے گا وہ دنیاوی طور بھی خسارے میں رہے گا اور آخرت بھی برباد کرے گا لہٰذا سب سے بہتر کام اللہ کی اطاعت ہے جو دنیا و آخرت کے فوائد کو جانتا ہے جس کے بنائے قوانین پر عمل ہی دنیا و آخرت کے حصول کو یقینی بناتا ہے۔
بیوی کی وراثت:
اس سے پہلے ان لوگوں میں وراثت کی تقسیم کا ذکر تھا جن کا تعلق سب سے ہے اب مرنے والے کے ازدواجی رشتے کے بارے احکام آرہے ہیں کہ اگر کسی کی بیوی فوت ہوجائے اور وہ صاحب ِ جائیداد بھی ہو اور اس کی اولاد نہ ہوتو اس کی جائیداد کا نصف خاوند کو ملے گا اور اگر اس کی اولاد ہے تو مرد کو اس کے ترکہ سے ایک چوتھائی ملے گا اس کے قرض وغیرہ اتار کر اور وصیت پوری کرنے کے بعد اور باتی اس کی اولاد اور دوسرے وارثان میں تقسیم ہوگا۔
خاوند کی وراثت:
اگر مرد فوت ہو جاتا ہے اور اس کی اولاد نہیں ہے تو ترکے کا چوتھائی حصہ اس کی بیوی کو ملے گا بعد وصیت اور قرض کی ادائیگی کے اور اگر اس کی اولاد ہے تو اس کی بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا بعد وصیت و قرض کی ادائیگی کے۔
بے اولاد مرد کی وراثت:
کوئی ایسا مرد فوت ہوجاتا ہے جس کی اولاد بھی نہ ہو اور والدین بھی نہ ہوں اس کے ْصرف ایک بھائی ایک بہن ہوں تو اس کی بہن کو بھی چھٹا حصہ ملے گا اور بھائی کو بھی چھٹا حصہ ملے گا۔ اور اگرایک بھائی اور ایک بہن سے زائد ہوں تو سب کل مال کے تیسرے میں برابر ہوں کے حصے اور یہ تقسیم اس وصیت کی تکمیل کے بعد ہے جو اس نے کی بشرطیکہ اس میں کسی کا نقصان نہ ہو او رقرض ادا کرنے کے بعد اگر اس پر قرض ہو۔جس کا جو شرعی حصہ بنتا ہے وہ اسے دیا جائے اور کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ اللہ کریم کا فیصلہ ہے اور اللہ کریم بہتر جاننے والے بھی ہیں اور ان کے احکام حکمت و دانائی سے پر ہوتے ہیں اور اللہ بہت حلم والے ہیں۔