پی ٹی آئی کو ایک اور ریلیف
پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان عبوری طور پر بحال کردیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کے لئے اُس کا انتخابی نشان بحال ہونا بہت بڑی خوش خبری ہے۔ تاہم مدنظر رہے کہ عدالت نے انتخابی نشان عبوری طور پر بحال کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر وہ فیصلہ خوش آئند ہے جس سے انتخابی عمل کی شفافیت کا عندیہ ملے اور غیر یقینی اور یکطرفہ میدان کا تاثر ختم ہو۔ چونکہ نو مئی اور اِس سے پہلے پی ٹی آئی دور حکومت کے معاملات کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور اِس جماعت کے سرگرم رہنما قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کا سامنا کررہے ہیں لہٰذا جب بھی کوئی نئی کارروائی ہوتی ہے تو اِس سے یہی تاثر سامنے آتا ہے کہ جیسے ایک ہی سیاسی جماعت زیر عتاب ہے لیکن اِس کے برعکس کسی اور سیاسی جماعت کے چونکہ ایسے معاملات زیر بحث ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف ایسی کارروائیاں ہورہی ہیں جیسی کارروائیوں کا پی ٹی آئی کو سامنا ہے لہٰذا جو لوگ درمیان میں کھڑے دائیں بائیں کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں وہ لیول پلے فیلڈ کا باربار مطالبہ کررہے ہیں شاید وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے لئے تمام جماعتوں کو برابری کے مواقعے دستیاب نہیں ہیں اسی لئے وہ پلڑے برابر کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ جہاں تک انتخابی نشان کا معاملہ ہے تو نیم خواندہ ووٹرز بیلٹ پیپر پر انتخابی نشان سے اپنی من پسند پارٹی کی شناخت کرلیتے ہیں جبکہ خواندہ افراد کو انتخابی نشان سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ پارٹی، اِس کے انتخابی نشان اور اُمیدوار کو بہ آسانی پہچان سکتا ہے۔ سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابی نشان تلوار کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا لیکن جب پیپلز پارٹی مختلف معاملات کی وجہ سے زیر عتاب آئی تو اِس کا انتخابی نشان تلوار ختم کردیاگیا اور پھر پیپلز پارٹی تب سے اب تک انتخابی نشان تیر کے ساتھ ہی انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہے۔ اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ سیاسی جماعتیں ہمہ وقت ایک سے زائد حکمت عملی کے ساتھ کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں لہٰذا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی انتخابی نشان واپس لینے کی صورت میں متبادل حکمت عملی تیار نہ کی ہو لیکن بہرکیف عدالت کے ذریعے انہیں عبوری ریلیف مل گیا ہے۔ صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہر وہ پاکستانی جو ملک میں روزگار، امن، پائیدار جمہوریت اور خوش حالی چاہتا ہے اِس کی خواہش یہی ہے کہ اِس بار ایسے انتخابات ہوں جو انتخابی مہم کے آغاز سے انتخابی عمل اور نتائج آنے تک متنازعہ نہ ہوں اور سبھی جماعتیں کھلے دل کے ساتھ نتائج کو تسلیم کریں اور مینڈیٹ حاصل کرنے والی جماعت کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلائیں تاکہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرسکے، اس دوران اپنی خامیوں اور غلطیوں کو سدھار کر زیادہ بہتر منشور اور بہتر ٹیم کے ساتھ اگلے انتخاب کے لئے تیاری کریں تاکہ عوام کوکارکردگی اور منشور کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ انسانی تاریخ کامیابیوں اور ناکامیوں سے بھری پڑی ہے لہٰذا ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر حال میں غلطیوں سے بچ سکتے ہیں اسی طرح ماضی کے درست فیصلوں اور ان کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حال میں اصلاح کرسکتے ہیں مگر یہ جبھی ممکن ہے اگر ہم ماضی میں جھانکیں ، ہم نے ماضی میں کئی سنگین غلطیاں کیں لیکن اِن سے اسباق حاصل نہ کیے یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی غلطیوں سے گریز نہیں کرتے بلکہ ہر غلطی کو نتائج جانتے بوجھتے ہوئے بھی کرگزرتے ہیں کہ اِس کے بعد کبھی غلطی نہیں کریں گے، یہی وجہ ہے کہ اصلاح کی بجائے غلطیوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انتخابات آتے ہیں اِن سے پہلے یا بعد میں کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جس سے براہ راست ملک و قوم کو نقصان ہوتا ہے لہٰذا کم ازکم تین سے چار دہائیوں سے کوئی الیکشن ایسا نہیں ہوا جس کے بعد ہم دعویدار ہوں کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت اسباق لے لیے، اب ہم اِن غلطیوں کا ازالہ کریں گے اور ملک و قوم کو مزید آزمائشوں اور خطرے میں ڈالنے کی بجائے بہتری کی طرف لیکر جائیں گے۔ ابھی تک تمام مشاہدات یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے پہلے جیسی یا اُس سے بڑی غلطی کرتے جارہے ہیں لیکن مدنظر رہنا چاہیے کہ تاریخ تو بہرحال لکھی جارہی ہے۔