آج کے کالممحمد انور گریوال

مونا لِیزا کی مسکراہٹ؟

محمد انور گریوال

کون ہے جس نے مونا لیزا کی تصویر نہیں دیکھ رکھی؟ جو کوئی کتاب اور اخبار کی دنیا تک رسائی رکھتا ہے وہ یقیناً اِس بات سے انکار نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ یہ تصویر مقبول ترین پینٹنگ کہلانے میں حق بجانب ہے۔قریباً پانچ صدیاں قبل اِس تصویر کے تخلیق کار کو بھی یہ اندازہ نہ ہوگا کہ آنے والے زمانوں میں اُس کا بنایا گیا شاہ پارہ کیا رنگ اختیار کرے گا، اور مقبولیت کے کون کونسے ریکارڈ قائم کرے گا۔ یہاں پہلا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ آیا یہ عالمی شہرت یافتہ پینٹنگ میں دکھائی دینے والی خاتون اپنی تصویر میں مسکرا رہی ہے؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے اِسے دوبارہ دیکھنا پڑے گا۔ یہ تصویر پیرس کے شمال میں ایک میوزیم میں نشاۃ ثانیہ کے دور کی مصوری کے دیگر فن پاروں کے ساتھ رکھی گئی ہے۔ ہم میں سے چونکہ بہت بھاری اکثریت فرانس کے’’ لوویرے‘‘ ( فرانسیسی زبان کے لفظ کو اردو میں مختلف لہجوں میں ادا کر لیا جاتا ہے، جیسے ترکیہ کے صدر کو اردگان کہتے تھے، اب اردوان کہتے ہیں) عجائب گھر تک پہنچنے کی حیثیت نہیں رکھتی، اس لئے پینٹنگ کی بنائی جانے والی تصاویر پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔ اگر یہی سوال مجھ سے کیا جائے تو میرا سوچا سمجھا اور صاف جواب یہی ہوگا کہ اس پینٹنگ میں مسکراہٹ تلاش کرنے میں کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ممکن ہے کہ ماحول کا اثر ہو، یعنی اگر آپ بہت ہی خوشگوار اور اچھے موڈ میں اِس تصویر کو دیکھتے ہیں تو یہ خوبیوں سے پُر ہے، اور اِس کی مسکراہٹ بھی دلکش اور جادوئی ہے، اگر تصویر دیکھتے ہوئے آپ مختلف ذہنی مسائل یا مصروفیات کا شکار ہیں، تو خوبیاں ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے۔
مونا لیزا کے مصوّر ڈائونچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سائنس دان بھی تھا، ریاضی سے بھی اسے دلچسپی تھی، مصنف بھی تھا۔ کسی کا خیال ہے کہ اُس نے مونا لیزا کی تصویر میں ایسے تخیلات ڈالے ہیں کہ جن کا صدیوں کی کوششوں کے باوجود زمانے کو ادراک نہیں ہو سکا۔ نہ جانے ریاضی کے کون سے فارمولے تصویر میںسمو دیئے گئے ہیں جن کے معمے حل ہونے کا نام نہیں لے رہے، ایسے راز ہیں جو فاش ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ریاضی کے سوالات تو شاید ہوں یا نہ ہوں البتہ جیومیٹری کی کہانی ضرور اِس میں شامل ہے، کہ اِس کا رُخ کس طرف ہے؟ اِس کا توازن کیسا ہے؟ کرسی پر بیٹھی وہ کیسی دکھائی دیتی ہے؟ اُس کی آنکھوں کا زاویہ کس طرف ہے؟ کہ دیکھنے والا جدھر جاتا ہے اُس کی آنکھیں بھی اُدھر ہی کو دیکھتی محسوس ہوتی ہیں، گویا دیکھنے والے کا پیچھا کرتی ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں اداسی ہے یا خوشی کا تصور؟ ایک طرف سے دیکھیں تو خوشی کا منظر نامہ سامنے آتا ہے ، دوسری طرف سے دیکھیں تو اداسی سی چھا جاتی ہے۔ اُس کے ہونٹوں کے کونے معمولی لکیر کی وجہ سے مسکراہٹ کا تاثر پیش کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ تصویر دھندلی ہونے کی وجہ سے انسانی نظر اس پر نہیں ٹھہرتی اور یوں یہ تصویر حرکت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ڈائونچی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو فرد اُس کی مہارتوں سے آشنا نہیں وہ اُس کے فن کی گہرائی کو نہیں پا سکتا۔ یہ قول بھی خود ڈائونچی کی ذات سے منسوب کیا گیا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ ہونے کی وجہ سے اِس تصویر پر یار لوگ اپنی آرا دینا اور خود کو محقق و مبصر ثابت کرنا ضروری تصور کرتے ہیں۔ مگر حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ تصویر میں موجود خاتون کا کسی کو علم نہیں کہ یہ ہے کون ؟ سُنا ہے پانچ صدیوں سے اِس بات پر بھی تحقیق جاری ہے۔ اگر اِسی رفتار سے تحقیق کا یہ عمل جاری رہا تو اگلی چار چھ صدیوں میں ترقی یافتہ دنیا کے آثارِ قدیمہ وغیرہ کے ماہرین ضرور کسی نتیجے تک پہنچ ہی جائیں گے۔ خیر تحقیق تو ہوتی رہے گی، اور ہو ہی رہی ہوگی ، مگر اصل معاملہ تصویر کا ہے نہ کہ اُس خاتون کی پہچان یا تعارف کا۔ سوچ کے دھارے کے آگے بند باندھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے، اس لئے میں کبھی یہ سوچتا ہوں کہ فرانس اور دیگر ترقی یافتہ دنیا دریافت اور کھوج میں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، دنیاوی ترقی کی کونسی منازل ہیں جو حاصل نہیں ہو چکیں، آئی ٹی کی حیرت انگیز ایجادیں انسانی عقل کو ششدر کر رہی ہیں، مصنوعی ذہانت کے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ کیا جانئے کہ آنے والے وقت میں یہی تصویر والی مونا لیزا مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنے بارے میں پائے جانے والے تمام راز کھول کر رکھ دے اور تمام سوالات کے جوابات اگلنے لگے ، یہ بھی بتا دے کہ مصور تصویر میں کیا کیا پیغام دینا چاہتا تھا؟ مسکراہٹ میں کیا راز پوشیدہ ہے؟اس میں ریاضی کے کون کونسے فارمولے چھپے ہوئے ہیں؟ یوں دنیا کے سامنے نیا حیرت کدہ کھل جائے گا۔
قطع نظر اس بات کے کہ یہ کس عورت کی تصویر ہے، بس یہ سوچئے کہ پانچ صدیاں گزرنے کے باوجود اِس کی اہمیت میں ذرا کمی نہیں آئی۔پہلے یہ فرانس کے بادشاہ فرانسس اول کے محل میں رہی، ڈائونچی نے زندگی کے آخری ایام بادشاہ کے محل میں گزارے تھے۔ انقلابِ فرانس سے قبل یہ فرانس کے شاہی محل میں عوام کی نگاہوں سے صدیوں تک اوجھل تھی۔ انقلاب کے بعد دیگر فنون کے شاہی ذخیرے کے ساتھاِسے عوامی ملکیت قرار دے کر میوزیم کی زینت بنا دیا گیا یہ پینٹنگ کچھ عرصہ نپولین کے سونے کے کمرے میں بھی گزار چکی ہے۔ 1960-70 کی دہائی میں اس تصویر کو امریکہ اور جاپان کی سیر کروائی گئی، جس سے اِس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اب بھی لاکھوں لوگ اسے دیکھنے کے لئے ٹکٹ خرید کر آتے ہیں اور دیکھنے والوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔
اِس تصویر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے جاتے ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ تصویر صدیوں پرانی ہونے کے ناطے اہمیت رکھتی ہے، پینٹنگ بھی بلاشبہ اچھی ہے، مگر جو تصورات اِس میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ سب کچھ تصوارتی ہی ہے۔ بس بات بڑھا دی گئی ہے اور بڑھتی جارہی ہے۔ ہوا یہی کچھ کہ لیونارڈو ڈائونچی نے یہ پینٹنگ بنائی، کسی بادشاہ کو بہت پسند آگئی، معاملہ شاہی دربار تک پہنچ گیا، پھر یہ شاہوں کے درباروں کی زینت بننے لگی۔ جس قابض نے حکومت سنبھالی یہ تصویر اسی کی ملکیت ہو گئی۔ بادشاہوں کی پسند ہونے کی وجہ سے درباریوں نے اپنی روایت کے مطابق اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے، اِس کی ایسی ایسی خوبیاں بیان کیں کہ شاید ڈائونچی کے وہم و گمان بھی نہ آئی ہوں گی، ایسے ایسے اوصاف بیان ہوئے کہ خود مصور کے حاشیہ خیال سے بھی نہ گزرے ہوں گے۔ یہی اس تصویر کی مقبولیت کی کہانی ہے۔

جواب دیں

Back to top button