چیف جسٹس کی دانش آئین کا متبادل نہیں ہوسکتی: اہم کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ سے پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو نیچا نہیں دکھایا پارلیمان کا ادارہ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا 22 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ تحریر کردیا جس میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھتی ہے، پارلیمنٹ کے بنائے گئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں کسی طور بھی آئینی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی ہر شق کا انتہائی احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا ہے، ایکٹ کے ذریعے نہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو نیچا دکھایا اور نہ ہی عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہوئی، بلکہ عدلیہ مضبوط اور زیادہ خودمختار ہوئی، اس ایکٹ سے انصاف تک رسائی میں آسانی آئی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے تحریر کیا کہ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے، عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں، سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کو چھوٹے بنچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے، آئینی روایات کو قانون کی طرز پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے تحریر کیا کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس پاکستان اور دیگر ججز پر مشتمل ہے، آئین چیف جسٹس پاکستان کو یک طرفہ مقدمات کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیتا، چیف جسٹس پاکستان اپنی دانش آئین کا متبادل نہیں ہوسکتی، نہ ہی چیف جسٹس پاکستان اپنی رائے دیگر ججز پر تھوپ سکتے ہیں