بلوچ خواتین مارچ اور ریاستی رویہ
تمھارے جبر سے سیکھا ہے بولنا میں نے
تمھارا ظلم مرے حوصلے بڑھاتا ہے
ش۔گ
ریاستیں کوئی واہمہ نہیں ہوتیں۔ ریاستوں کا سٹیٹس ادارے ہیں جن پر انسان بیٹھتے ہیں ۔ اور ان کا ویژن اور کردار ہی ریاستوں کا مقام متعین کرتا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی ریاست کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اور یہ سوال ان افراد کے ویژن کردار ان کی دوراندیشی اور فیصلوں کے اثرات کے حوالے سے ہیں ۔ اس لئے جب بھی ریاست کی بات ہوگی تو یہ کسی متھ کی بات نہیں ہوگی یہ ریاستوں کے بنیادی اصولوں پر عملدرآمد کرنے اور کروانے والے افراد پر بات ہوگی۔
ایک حقیقت ہے کہ ریاستیں ہمیشہ لوگوں اور قوموں کا قد چھوٹا کرتی ہیں۔ لیکن ہمیشہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں ۔ کبھی کبھی لوگ بھی ریاستوں کا قد چھوٹا کرتے ہیں۔ یہ بات پاکستانی ریاست کے بزرجمہروں کو نہیں بھولنی چاہیے تھی۔ اس لئے کہ وہ ایک ایسے ہی تلخ تجربے سے گزر چکے تھے ۔ اور اس کے بعد اس کے کریڈٹ پر چند پراکسی کے علاؤہ کچھ نہیں۔ اور دنیا اب اس پراکسی کو ایک بڑا خسارہ تسلیم کر چکی ہے۔
یہ بات کہ تمہارے مرد کہاں ہیں۔ یہ رویہ ریاست کی نمائندگی ہے۔ ریاستوں کو بھی ہر وقت تجاہل عارفانہ راس نہیں آتا بلوچ قوم کے مرد پہلے سے میدان میں ہیں جو نہ بچ سکے ان کی یادیں ان خواتین کے پلو میں بندھی مقدس مٹی ہے۔ جس سے یہ شعور حاصل کر کے یہاں پہنچی تھیں ۔ یہ سوال اس نظام کی شرمندگی میں یکدم اضافہ کر گیا۔ لوگوں کو وہ سب منظر یاد آنے لگے۔ بلوچ خواتین پہلی دفعہ 2018 کے اواخر میں اس نوعیت کے احتجاج کا حصہ بنیں اور چار پانچ سال کے اندر ہی بلوچ قبائلی اور روایات کی عادی خواتین کا سماجی اور قومی شعور میں انقلابی تبدیلی رونما ہوئی اور انھیں اپنی بقا کے لئے اپنی چار دیواری سے باہر کی دنیا میں اپنی جنگ کے لئے مزاحمت کا پرچم بلند کرنا پڑا۔
اہل عقل کو سوچ لینا چاہیے کہ جبر اور لاتعلقی اور لاعلمی ہر مرض کا علاج نہیں۔ماضی قریب کے ان بدتر حالات میں گھری بلوچ قوم سوال کرتی تھی تو کہا جاتا تھا ہمیں نہیں پتہ۔ اس قوم کے بڑے لیڈر بڑے ادارے اور بڑے سردار سب کہتے تھے ہمیں نہیں پتہ۔لیکن وہ وقت دور نہیں جب سب کو پتہ ہوگا اور وہ بتائیں گے ہمیں پتہ ہے۔ پھر شاید وقت کی گردش اس سوال کو پیچھے چھوڑ چکی ہوگی ۔ بد قسمتی سے نوشتہ دیوار ریاستوں کو پڑھنا نہیں آتا۔
آج کا سوال بھی اب دوبارہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی۔یہی وہ رویے ہیں جو قوموں کو چھوٹا اور ریاستوں کی ڈاؤن سائزنگ کر دیتے ہیں۔
جہاں احتجاج اور حق مانگنے کو بغاوت سمجھا جائے۔ وہاں لوگ سچ میں بغاوت کے لئے پر تولنے لگتے ہیں۔ بلوچستان کی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اقلیتوں اور چند دیگر اقوام کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ جس نظام میں لوگوں کے احتجاج کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں، جہاں شہری اپنی جاں کے تحفظ کی بھیک مانگتے پھریں۔ اور جہاں احتجاج کو گولی اور ڈنڈے سے روکا جانے لگے۔ جہاں خواتین بچوں اور بزرگوں کا احترام نہ ہو۔ وہاں لوگوں کی امیدیں حوصلے اور ہمتیں دم توڑنے لگتی ہیں۔
بیس دسمبر کی رات بلوچ خواتین کا ایک مارچ اسلام آباد پہنچا اور اسی شب اس مارچ کو ناکام بنانے اور خواتین کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ مارچ اور بلوچ گمشدہ افراد کے حوالے سے احتجاج گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ بلوچ قوم کئی سالوں سے اپنے حقوق اور اپنے گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاج کر رہی ہے۔اور حالیہ مارچ بھی اسی سلسلے میں تھا اور یوں میڈیا اور عالمی ذرائع ابلاغ کی نظر میں تھا۔
اگر ملکی سطح پہ میڈیا پر پابندی لگا کر کوئی سمجھ بیٹھا ہے کہ کسی کو پتہ نہ چلے گا تو یہ اس کی غلطی فہمی ہے۔ سائبر دنیا میں رائے عامہ کو گمراہ کرنا اب اتنا سان نہیں۔ یوں مارچ کے مقاصد گرفتاریوں اور پابندیوں کے باوجود پورے ہورہےہیں اور بلوچستان کے مسائل دن بہ دن واضع ہورہے ہیں اور عام آدمی بلوچستان کے مسائل کو زیادہ سمجھنے لگا ہے۔
ان دو دنوں میں عام صارف کو بھی پتہ لگنے لگا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور ریاست ان کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔ خواتین اپنے قبائلی اور قومی لباس میں بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ مارچ میں شامل ہوئیں اور ایک بڑی تعداد کئی دن کی مشقت کے بعد اسلام آباد پہنچی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مارچ کے یہاں انتظامات کئے جاتے اور سنجیدگی سے انھیں سنا جاتا اور پھر انھیں آس امید دے کر رخصت کیا جاتا ۔
احتجاج اور مارچ کا یہ جمہوری طریقہ ہے۔ حکومت کا اسے غیرجمہوری طریقے سے ناکام بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کو آخری امید سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا جانتی اور اس وقت ہر شخص کو پتہ ہے کہ اسی اسلام آباد میں ایک سوبیس کا دھرنا پورے اہتمام سے جاری رہا تھا ۔ یہیں فیض آباد کا دھرنا ہوا اور ان سے حکومت اور ادارے مذاکرات کرتے رہے ۔
لیکن ایک صوبے کی خواتین کے ساتھ قابل مذمت امتیازی سلوک کیا گیا ۔یہ وہ رویے ہیں جو لوگوں کو فیڈریشن سے دور کرتے ہیں۔ اور لوگ کچھ اور سوچنے لگتے ہیں۔ بلوچ خواتین کے اس مارچ میں ہمارے صحافیوں اور میڈیا کا کردار بھی انتہائی معاندانہ رہا ہے۔۔آپ اسے منافقانہ اور بزدلانہ کہہ سکتے ہیں۔ انتہائی منفی طرز عمل ہے۔ حکومت اور ریاست کے وارث مسلسل اس قوم کے محرومی کا شکار لوگوں کو دیوار سے لگا رہے ہیں۔ ریاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا نہ ہو لیکن دماغ تو ہونا چاہیے اور پاکستان میں اس سٹیٹس کے وارث شاید دونوں سے محروم ہیں۔