شہید رانی مضبوط وفاق کی علامت تھیں
غلام مصطفیٰ
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد سابق صدر جنرل ضیا ءالحق بے نظیر بھٹو(شہید) کو اپنے اقتدار کےلئے خطرہ سمجھنے لگے تھے، اس لئے محترمہ کو کئی مواقعوں پر ہراساں کیا گیا تاکہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں لیکن محترمہ نے حکومتی جبرو استبداد کے باوجود سرتسلیم خم نہیں کیا بلکہ مشکل ترین حالات اور جبر کا بڑی ہمت واستقال کے ساتھ مقابلہ کرتی رہیں جبکہ انہیں راستے سے ہٹانے کے لئے ہرحربہ استعمال کیا گیا،بسااوقات انہیں قید تنہائی میں بھی رکھاگیا لیکن اس کے باوجود محترمہ کے حوصلے پست نہیں ہوئے،بلکہ وہ اپنے مشن پر قائم رہیں اور ان کامشن تھا جمہوریت کی بحالی اور عوام کو ان کے معاشی وسماجی حقوق دلانا، معاشی طور پر مضبوط بناناوہ معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان اتحاد ویگانگت پیدا کرکے وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی تھیںکیونکہ عوام کی خوشحالی ہی ریاست کی ترقی کاضامن ہوتی ہے دنیا بھر میں جن ممالک نے بھی معاشی میدان میں ترقی کی ہے‘ ان ممالک نے سب سے پہلے اپنی عوام کو سماجی ومعاشی طور پر مضبو ط کیاہے اور اس ہی مضبوطی کی بنا پر ان ممالک میں ترقی رونما پذیر ہوئی ہے اور یہ بات شہید رانی اچھی طرح جانتی تھیں اور اسی مقصد کیلئے وہ سیاست میں آئیں تھیں،اپنے دور اقتدار میں انہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے بھی بہت کام کیا تھا۔وہ چاہتی تھیں کہ ہمارے معاشرے میں کسی فردیاطبقے کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ وہ انتقام کی سیاست پر یقین نہیںرکھتی تھیں اور نہ ہی انہوں نے اس سلسلے میں کسی کےخلاف ایسا قدم اٹھایا بلکہ انہوں نے سب کو معاف کرتے ہوئے ملک کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔اگرچہ ان کی حکومت کےلئے سازشی عناصر نے بڑی رکاوٹیں پیدا کیں لیکن وہ پھر بھی یکسوئی کےساتھ ملک کا نظم ونسق چلانے کی کوشش کرتی رہیں۔پرویز مشرف مرحوم کے دور میں وہ دوبارہ وطن واپس آئیں تاکہ پیپلزپارٹی کوعوام میں فعال اور موثر بنانے کے ساتھ ساتھ اور انتخابات میں حصہ لےکر عوام کی بھرپور خدمت کرسکیں ۔ لیکن یہ پاکستان اور پاکستانی عوامی بدقسمتی سے تھی کہ زندگی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔
21 جون 1953کو کراچی میں پیدا ہونےوالی بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون سیاستدان تھیں جو 2 مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ انہوں نے پہلی بار 1988 سے 1990 تک اور پھر 1993 سے 1996 تک وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ان کا سیاسی کیرئیر 1980 کی دہائی کے اوائل سے 2007 میں (شہید ہونے) پرمحیط ہے۔ 27دسمبر 2022 کو ان کی 15ویں برسی منائی جارہی ہے۔ شہیدبے نظیر بھٹو صاحبہ نے1998 میں دبئی میں جلاوطنی اختیار کرلی تھی ۔ بعدازاں وہ 08 2007 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کےلئے وطن واپس آئیں۔ واپسی پر18اکتوبر کو کراچی میں کار ساز کے مقام پر ان قافلے پر بم سے حملہ کیا گیا جس میں وہ توخوش قسمتی سے بچ گئیں لیکن پیپلزپارٹی کے درجنوں کارکنان شہید وزخمی ہوگئے۔بعدازاں راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد27دسمبر2007 کو انہیں شہید کردیا گیا۔ انہیں سندھ میں گڑھی خدا بخش میں واقع اپنے خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔بے نظیر بھٹو سیاسی کامیابی کی وجہ سے خواتین میں رول مڈل کے طور پر جانی جاتیں ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو سے کون واقف نہیں ہے، ساری دنیا جانتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے اپنی جان کی بھی پروا ہ نہیں کی ۔ بھٹونے پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف کھڑا کرنے کے لئے بہت کوشش کی لیکن پاکستان کی باقی سیاسی قیادت نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ آصف علی زرداری کسی سے بھی تعلقات قائم کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ وہ سب کو ساتھ ملاکر چلناچاہتے ہیں جوکہ ایک اچھی بات ہے۔ آصف علی زرداری صاحب میں سیاسی بصیرت کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان سے اختلاف رکھنے والے لوگ ان کا یہ پہلو دیکھتے ہیں کہ وہ بھٹو کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے، اس سے کیا فرق پڑتاہے کہ آصف علی زرداری بھٹو خاندان سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کانعرہ لگاکر ثابت کردیا کہ پیپلزپارٹی وفاق کی علامت ہے۔ پاکستان کی سیاست دنیا کے دیگر ممالک سے مختلف ہے اوریہ بات بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت کو سپورٹ کرنےوالے سیاستدانوں کی اکثریت خود غرض ہے اوراپوزیشن کا کردارصرف تنقید کرنے تک محدود رہاہے تنقید برائے اصلاح اپوزیشن کی جماعتوں میں کم ہی نظر آتاہے۔ ملکی سیاست میں پی ٹی آئی کی آمد سے بڑی تبدیلی آچکی ہے اور اس وقت ساری جماعتیں آئندہ عام انتخابات کے لئے تیاری کررہی ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کیا ایجنڈا لیکر عوام میں جائیں گی یہ بات ساری جماعتوں کیلئے بڑی اہمیت اختیار کرگئی ہے وہ اپنے منشور تیار کررہی ہیں جس کے ذریعے عوام کو اپنی جانب راغب کیاجاسکے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کی ملک کے لئے خدمات ناقابل فراموش ہیں، بھٹوصاحب نے پاکستان کو ایٹم بم بنانے اور ملک کادفاع ناقابل تسخیر بنانے کے لئے بہت محنت کی تھی۔ بھٹو نے پاکستان کو متفقہ طور پر 1973 آئین دیا۔ جب بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہاتھاکہ ’’ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ اور پھرانہوں نے ایٹم بناکر بھی دکھایا۔ ایٹم بم بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا اس کام کے لئے بھٹو نے امریکہ جیسے سپرپاور ملک سے ٹکر لی تھی جو واقعی جان جوکھوں کا کام تھا۔ جس کی پاداش میں بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کو اپنی جانوں کانذرانہ دینا پڑا۔ بھٹو صاحب کو ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کی سزا دی گئی،پھر اس کے بعد ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سیاست میں آئیں اور وزیراعظم بھی بنیں۔بے نظیر بھٹو صاحبہ جب وزیراعظم تھیں تو ان پر پاکستان کے جوہری ٹیکنالوجی صلاحیت کے بارے میں جاننے کے لئے غیر ملکی دباؤ تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی پاکستان کے ایٹمی پلان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ انہوں نے ہمیشہ قومی راز اور ملکی مفاد کو مقدم رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جب آخری مرتبہ پاکستان آئیں تو وہ بھی ان کا عوام سے محبت اور محب وطنی کا ثبوت تھا کیونکہ انہیں واضح طور پر دھمکیاں مل رہی تھیں کہ وہ پاکستان نہ آئیں یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن انہوں نے اپنی جان کی پروا نہیں کی۔ ایک ماں کی حیثیت سے بھی بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دل میں عوام کا دکھ ودرد موجودتھا اور یہی وجہ تھی کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے پاکستان واپسی کا مشکل فیصلہ کیاہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ دراصل وہ عوام کو مشکلات سے نکالناچاہتی تھیں جو غیر ملکی قوتوں کو برداشت نہ ہوسکا۔
وہ عوام کوحقوق دلانے کے لئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر پاکستان واپس آگئیں لیکن بدقسمتی سے وہ زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکیں،شاید رب کو یہی منظور تھا، ورنہ آج پاکستان کی معیشت ایشیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں شمار ہوتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا، جس کا ہمیشہ افسوس رہے گا ۔اگر ملکی خدمت کی بات کی جائے تو پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا سب سے بڑی خدمت ہے، کیونکہ ملک ہے تو ہم ہیں، اگرخدانخواستہ ہم ایٹمی قوت نہ بن پاتے تو بھارت کب کا پاکستان پر حملہ کرکے ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتا لیکن’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘ پاکستان آج جوہری طاقت ہونے ہی وجہ سے کافی حد تک محفوظ ہے۔ پیپلزپارٹی کو شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہیدبے نظیر بھٹو کے فلسفے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت ان میں کم نظر آرہاہے پیپلزپارٹی کو اندرون سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے، سندھ بالخصوص کراچی کودوبارہ سے روشنیوں کا شہر بنانے کے لئے مخلص اور مقامی قیادت کی ضرورت ہے، کراچی کے میئر کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے، کافی عرصے تک بلدیاتی نظام کے غیر فعال ہونے سے کراچی کھنڈرات میں تبدیل ہوچکاہے، کراچی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم فخر کے ساتھ پوری دنیا کو بتا سکیں کہ موجودہ پیپلزپارٹی نے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ویژن کو مکمل کرنا چاہتی ہے۔بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں پاکستان ترقی کررہاتھا لیکن ان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا حالانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل خاتون تھیں وہ نہ صرف پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کراناچاہتی تھیں بلکہ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے ان کی جدوجہد کو ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ وہ جب تک زندہ رہیں پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے کام کرتی رہیں‘ جہاں محترمہ کی شہادت سے پیپلزپارٹی کو نقصان ہوا وہاں پاکستان کو بھی نقصان برداشت کرنا پڑا‘اگرچہ آصف علی زرداری نے اس خلا ءکو پرکرنے کی کوشش کی ہے لیکن دونوں میںزمین آسمان کا فرق ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ بے نظیر بھٹو جیسی قیادت تو اب پیپلزپارٹی کو میسر نہیں ہے‘ بلاول بھٹو اس سلسلے میں کام کررہے ہیں لیکن ابھی ان میں اپنی ماں اور نانا جیسی صلاحیتیں نظر نہیں آرہی ہیںکیونکہ بلاول بھٹو ابھی نوجوان ہیں اوراگر مستقبل میں وہ نئی سوچ کے ساتھ میدان میں آئیں گے تو پیپلزپارٹی کی پالیسیوں میں بھی تبدیلی نظر آئے گی اور یہ بہت ضروری ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کا گراف بہت کمزور ہوگیاہے، خاص طور پر پنجاب میں تو پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہت خراب ہے‘ بلاول بھٹو کو اپنی پارٹی کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔