ریاست بی بی کا آئین دراز

ریاست پاکستان کا آئین نامی بیٹا زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکا ہے۔ یہ عمر رسیدہ آئین بہت سے سرد گرم دیکھتا ہوا آج جس حال میں ہمارے پاس ہے یہ بھی غنیمت ہے۔ اس سے قبل آئین کے دو بھائی اپنی کم سنی میں ہی رخصت ہو گئے تھے، ایک کی پیدائش سن 1956 کے تیسرے مہینے میں ہوئی اور وہ صرف ڈھائی سال کی مختصر عمر میں ہی چل بسا۔ اس پر مارشل لا کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکا جبکہ اس کی رخصت کے بعد قریباً چار سال بعد سن 1962 کے دوسرے دستور کی پیدائش ہوئی مگر وہ بھی 1969 کو زندگی کی بازی ہار گیا اور صرف ساتھ بہاریں دیکھ پایا، اس کے بعد ریاست کی تیسرے نور نظر آئین کی پیدائش سن 1973 کو ہوئی تھی۔ اس کا پورا نام تو آئین دراز ہونا چاہئے تھا کیونکہ جس طرح عمر دراز کا مطلب لمبی عمر والا شخص ہوتا ہے اسی طرح اپنے دیگر دو بھائیوں کی نسبت اتنی لمبی عمر پانے والا آئین دراز ہی ہونا چاہئے۔ خیر یہ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا جنہوں نے تمام مکاتب مفکر کی مضبوط آرا، مشاورت اور کہنہ مشقی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اس آئین کو تخیلق کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت بائیں بازو کی مضبوط جماعت بن کر ابھر چکی تھی جبکہ ریاست پاکستان اپنی سیاسی کمزوری اور دستوری نقاہت کی وجہ سے اپنا ایک حصہ کھو چکا تھا۔
مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش کے نام سے سنا اور پکارا جانے لگا تھا لیکن یاران سیاست کسی خفت ، پشیمانی یا افسردگی کے بغیر معاملات زندگی اور امور بندگی چلا رہے تھے، کاروبار سیاست جوں کا توں رواں تھا تاہم آئین 1973کی پیدائش ہو چکی تھی۔ آئنی کسی بھی آزاد ریاست کا وہ شہ زور ہوتا ہے جس کی موجودگی اور طاقتوری کی وجہ سے ریاست کے تمام اداراے تمام سرکاری دفاتر تمام امور اور معاملات ریاست خوش اسلوبی سے بخوبی انجام پا رہے ہوتے ہیں، اس کی جتنی اچھی پرورش ہو گی اتنی اچھی صحت ہو گی اور جتنی اچھی صحت ہو گی ریاست کے معاملات اتنے ہی اچھے انداز میں چلیں گے لیکن پنجاب، سندھ ، بلوچستان اور سرحد سمیت ملک بھر کے میدانی و پہاڑی علاقوں، صحراوں، جنگلوں اور دریائوں کی وجہ سے صحت افزا مٹی، پانی، معدنیات، ذخائر اور آب و ہوا کے باوجود اس آئین وہ وہ عہد شباب اور جوانی نہ آ سکی اس کو وہ تندرستی نصیب نہ ہو سکی جس کے بارے غالب نے کہا تھا کہ’’ تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ آئین کی صحت کی کمزور اور لاغر پن کی وجہ سے ریاست کے اداروں میں کام اس مستعدی چستی اور برق رفتاری سے انجام نہ پا سکے جس کی اس ریاست کو ضرورت تھی اور نتیجتاً ترقی کا پہیہ ناتواں ہاتوں سے چلنے کی وجہ سے مطلوبہ رفتار نہ پکڑ سکا۔ اس آئین کو اپنی کم سنی میں ہی مارشل لا جیسی مہلک مرض لاحق ہوا جس جو لمبے عرصے کے علاج معالجے کے بعد بہرحال قریباً گیارہ سال بعد ختم ہوا لیکن جو شباب اور ایام جوانی اس آئین پر آنی چاہئے تھی وہ نہ آ سکی۔ ایک غریب ملک کے گلی محلوں میں پلنے والا ریاست پاکستان کا آئین نامی یہ بچہ جیسے تیسے بھی عمر کی سیڑھیاں چڑھتا گیا اور بڑا ہوتا گیا، گو عین شباب میں اسے معطلی جیسی نیم غنودگی میں ایک لمبا عرصہ گزارنا پڑا جس نے ایک بار پھر اس کی صحت کو بری طرح متاثر کیا مگر سخت جان آئین پھر بھی کسی نہ کسی طرح زندگی کی بازی جیتتا رہا اور زندگی رواں دواں رہی۔
گو کہ اس دوران’’نظریہ ضرورت‘‘ جیسا موذی وائرس اس پر حملہ آور ہو چکا تھا جس نے اس کی صحت کو بری طرح نقصان پہنچایا اور ہنوز یہ صحت بگڑتی سنبھلتی صورت حال سے دوچار ہے۔ مختلف اوقات میں ترامیم کے نام پر اس فرزند ریاست کے کئی آپریشن بھی ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح ڈاکٹر ایک مریض سے یہ کہتے ہوئے اسے آپریشن کی اذیت سے دوچار کرتا ہے کہ اگر مریض کی زندگی بچانی ہے تو آپریشن تو کرنا ہی پڑے گا بعینہ آئین دراز کی بھی ترامیم کے نام پر کئی سرجریاں ہو چکی اور ہر بار یہی کہہ کر آپریشن یا ترمیم کی جاتی رہی کہ آئین کو بچانے اور ریاستی بیماریوں کو دفنانے کے لئے، ریاست کے وسیع مفاد کے لئے یہ ترمیم یہ سرجری بہت ضروری ہے اور اس پر نہ بیچارا آئین دراز کچھ بولا اور نہ ہی اس کی ماں یعنی ریاست بی بی نے کبھی کچھ کہا۔ نئے دور میں اس عمر رسیدہ آئین کی تشریح کے نام پر کئی بار تضیحک بھی کی جاتی رہی ہے لیکن جیسے تیسے بھی وہ اپنی سبکی چپکے سے برداشت کرتا رہا کہ چلو سانس ابھی باقی ہے۔ اب خیر سے یہ اپنی زندگی کی پچاسویں بہار دیکھ رہاہے۔ دعا ہے کہ اللہ اس کی صحیح معنوں میں عمر دراز کر اور اللہ اس پر رحم فرما کر اسے مزید آپریشنز یا ترامیم سے بھی محفوظ رکھے۔ مارشل لا، سول مارشل لا یا نظریہ ضرورت وغیرہ جیسی تمام مہلک اور جاں لیوا بیماریاں اور نیم غنودگی یا کومہ میں پہنچانے والے حادثات سے محفوظ رکھے، آمین۔ لیکن! سنا ہے آج سے تیرہ سال پہلے اپریل سن 2010 میں آخری سرجری یعنی اٹھارویں ترمیم میں ڈاکٹر آپریشن کے بعد تولیہ اندر ہی بھول گئے تھے جس کے بارے میں اب ڈیوٹی ڈاکٹروں کی رائے بن رہی ہے کہ دوبارہ آپریشن کر کے وہ تولیہ نکال کر دوبارہ ٹانکے لگائے جائیں۔ یہ سرجری جو ان کے نزدیک اتنے سالوں سے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی اسے مکمل کیا جائے۔ یہ آئین اس ریاست کی زندہ بچنے والی اکلوتی اولاد ہے جس کے لئے دعا گو ہیں کہ یہ خیر و عافیت کی لمبی زندگی گذارے، جوانیاں مانے اور اپنی ماں ریاست بی بی کی آنکھوں کا تارا بنے۔ آمین