بے نظیر بھٹو کی زندگی پر نظر
ساجدہ صدیق
بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہيں مگر مدت مکمل نہ کر سکیں ۔ 2007ء میں ان کی غیر متوقع موت نے پاکستان کے سیاسی حالات کو بدل کر رکھ دیا۔اپنی زندگی کے جوانی کے ایام میں ہی انہوں نے اپنے والد کے سیاسی دشمنوں کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا۔ صعوبتیں اور تکالیف برداشت کیں ۔ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی دلیرانہ شہادت اور ان کی عوام دوست رویوں کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی اپنے عروج تک پہنچ گئی ۔ مگر ان کی شہادت کے بعد پارٹی قیادت کو ان کے شوہر نے مشکوک طریقے سے اپنے ہاتھ میں لیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹو 21 جون، 1953ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری سکول (Lady Jennings Nursery School) اور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری (Convent of Jesus and Mary) کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ (Rawalpindi Presentation Convent) میں بھی تعلیم حاصل کی، جبکہ انہیں بعد میں مری کے جیسس اینڈ میری میں داخلہ دلوایا گیا۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اپریل 1969ء میں انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے Radcliffe College میں داخلہ لیا۔ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard University) سے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے درمیان کافی مقبول تھیں۔ بے نظیر اپنے پہلے دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو امریکا کے کہنے پر رول بیک کرنے کے لئے تیار ہو گئی تھیں لیکن آرمی کے دباؤ کی وجہ سے نہ کر سکیں، اس بات کو بینظیر کی پاکستان دشمنی تصور کیا گیاآپ اور آپ کے خاوند آصف علی زرداری پر مالی بدعنوانی کے بیشتر الزامات ہیں اور اس سلسلہ میں دنیا کے مختلف ممالک میں مقدمات قائم ہیں۔اکتوبر 2007ء میں بینظیر امریکی امداد سے پرویز مشرف کی حکومت سے سازباز کے نتیجے میں اپنے خلاف مالی بدعنوانی کے تمام مقدمات ختم کروانے میں کامیاب ہو گئیں۔ قومی مفاہمت فرمان کے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران قومی احتساب دفتر نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کیے۔ 2007ءبینظیر نے فوجی آمر پرویز مشرف کی طرف سے 3 نومبر 2007ء کو ہنگامی حالات کے نفاذ اور منصف اعظم پاکستان افتخار محمد چودھری کو ہٹانے کی درپردہ حمایت کی۔ تاہم بیان بازی کی حد تک بینظیر نے اس فوجی اقدام پر کچھ عرصہ تنقید کی، مگر بعد میں کھلم کھلا حمایت کی ۔
بے نظیر نے اپنے بھائی مرتضٰی کے قتل اور اپنی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں دبئی میں قیام کیا۔ اسی دوران بے نظیر، نواز شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ مل کر لندن میں اے آر ڈی کی بنیاد ڈالی۔ اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا۔ ان کی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران ایک اہم پیش رفت اس وقت ہوئی۔ جب 14 مئی 2006ء میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے جمہوریت کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ دوسری پیش قدمی اس وقت ہوئی جب 28 جولائی 2007ء کو ابوظہبی میں جنرل مشرف اور بے نظیر کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن قریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر کا کارواں شاہراہِ فیصل پر مزارِ قائد کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 10 افراد موت کی نیند سو گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بے نظیر کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن جب اپنے بچوں(بلاول، بختاور اور آصفہ) سے ملنے دوبارہ دبئی گئیں تو ملک کے اندر جنرل مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی۔ یہ خبر سنتے ہی بے نظیر دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں۔ ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔اس وقت تک ملک میں نگران حکومت بن چکی تھی اور مختلف پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے کے معاملے میں بٹی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی نے میدان خالی نہ چھوڑنے کی حکمت عملی کے تحت تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے۔اور کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔
بے نظیر نے لال مسجد آپریشن کی کھل کر حمایت کی اور ایک انٹرویو میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ امریکی افواج کو پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی اجازت دے دیں گی۔ جس کے بعد وہ پاکستان کے وجود کے لئے ایک خطرہ کہا جانے لگا۔ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ ملک کے عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیرخان کو پوچھ گچھ کے لئے امریکا کے حوالے کر دیں گی۔محترمہ کے ان بیانات نے پاکستانی قوم میں بڑا اضطراب پیدا کر دیا۔ قوم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ کرسی کے حصول کے لئے امریکا اور مغرب کو خوش کرنے کی خاطر محترمہ کس حد تک جا سکتی ہیں۔