عام انتخابات اور جمہوریت کےتقاضے
ملک میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ قومی اسمبلی، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی جنرل نشستوں اور ان اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر مجموعی طور پر 30 ہزار سے زائد مردوخواتین بشمول سابق وزرائے اعظم، ان کے خاندان کے افراد، وزرا اور عزیز واقارب اور روایتی سیاست دانوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اتوار کے روز ملک میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے لئے ملک بھر میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا مرحلہ 2 روز کی توسیع کے بعدمکمل ہوگیاہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے امیدواروں کی ابتدائی فہرست اور سکروٹنی کل سے شروع ہوگی اور یہ عمل 30 دسمبر تک جاری رہے گا۔کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے آخری روز نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری، مریم نواز،عمران خان، بیرسٹر گوہر ، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن، شاہ محمود قریشی،چوہدری پرویز الٰہی،جہانگیر ترین، سردار لطیف کھوسہ، احسن اقبال،خالد مقبول صدیقی، مولانا فضل الرحمن نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں اور کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ بھی شروع ہوچکا ہے جو تیس دسمبر تک جاری رہے گا۔ اس کے بعد باقی وہ تمام مراحل جو الیکشن کمیشن نے شیڈول میں دیئے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق ہوں گے۔ بلاشبہ الیکشن کی تاریخ اور شیڈول سامنے آچکا اور الیکشن کے انعقاد سے متعلق جو بے یقینی سبھی جماعتیںمحسوس کررہی تھیں اُس کا خاتمہ ہوا ہے لیکن اِس کے باوجود سب کچھ اطمینان بخش ہوتا نظر نہیں آرہا جس سے اخذ کرنے میں آسانی ہو کہ عام انتخابات کے نتائج اور نئی حکومت کو سبھی بخوبی تسلیم کرلیں گے اور وہ پانچ سال اطمینان کے ساتھ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اس کو کسی قسم کے احتجاج یا سیاسی دبائو کا سامنا نہیں ہوگا۔ ایک سوال اُٹھتا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد سمیت دوسرے آئینی طریقوں سے منتخب حکومتیں گرانا ہی اقوام کی ترقی کا راز ہے تو پھر ہم اتنا پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ سیاست دان ہی سیاست دانوں کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور انہیں اقتدار سے نکال باہر کرنے کے لئے غیر سیاسی اور غیر جمہوری حربے اپناتے ہیں اِس لئے جمہوری تسلسل اگر آج تک قائم نہیں ہوسکا تو اِس کی وجہ عوام یا ادارے نہیں بلکہ سیاسی قیادت کی اپنی غلطیاں ہیں شاید کسی قومی جماعت کے لئے پانچ سال حزب اختلاف میں بیٹھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے جبھی بالآخر ایسے حربے استعمال کیےجاتے ہیں جن کی جمہوریت میں گنجائش نہیں ہوتی لہٰذا کے بعد دوسری جماعت زیر عتاب آجاتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اِس کے بعد بھی کسی جماعت نے زیر عتاب آنا ہوتا ہے۔ آج بعض سیاست دان بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی لیول پلے فیلڈنگ کی بات کررہے ہیں اِس کا مطلب ہے کہ کچھ تو ایسا ہے جس کو بنیاد بناکر ایسی باتیں کہی جارہی ہیں۔ مگر یاد رہنا چاہیے کہ عامۃ الناس بالخصوص کاروباری طبقہ کئی سال سے یہی سمجھ رہاہے کہ نو منتخب حکومت آنے سے اِن کے مسائل بالخصوص مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا لیکن جیسی آوازیں ابھی سے اٹھ رہی ہیں اِس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انتخابی عمل اور اِس کے نتائج کو متنازعہ بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ اِس لئے ضروری ہے کہ ایسی غلطیوں سے بچا جائے جن کے نتیجے میں ہم ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل میں پھنس جائیں۔ اور اِس دعوے کو تقویت ملے کہ حالات کسی کے لئے بہت ساز گار اور کسی کے لئے بالکل ساز گار نہیں ہیں۔ جن کے لئے حالات سازگار ہوں گے وہ تو یقیناً ایسے مطالبات نہیں کریں گے لیکن جو سمجھیں گے کہ ان کے حالات سازگار نہیں ہیں وہ بلاشبہ اِس پر احتجاج کریںگے اور سارے ہی عمل کو متنازعہ بنادیں گے۔ اِس لئے ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے سبھی مطمئن ہوں اور وہ اپنا اپنا منشور اور کارکردگی لے کر آٹھ فروری کو عوام کی عدالت میں جائیں پھر عوام کی مرضی وہ جسے چاہے منتخب کریں اور جسے چاہیں مسترد کریں لیکن اگر کچھ واقعات اِس دوران ایسے سامنے آجاتے ہیں جن سے انتخابی عمل کی شفافیت قبل ازوقت ہی مشکوک ہوجائے تو پھر سارا ہی عمل گدلا ہوجائے گا۔ انتخابات جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے اور پہلی سیڑھی پر ہی تنازعات کے ساتھ قدم نہیں رکھنا چاہیے، وگرنہ جمہوریت کی ساری ہی عمارت ماضی کی طرح کمزور اور متنازعہ رہے گی اور ہم سب پھر اگلے الیکشن کی طرف دیکھیں گے