بائیک چلاتی بیٹیاں اور لفنگے جوان

عبدالرزاق باجوہ
ویسے تو دنیا کے ہر معاشرے میں کسی نہ کسی صورت شرم و حیا پایا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت کو ایک مقدس اور قابلِ احترام مقام حاصل ہے۔ جس معاشرے میں ماں، بہن اور بیٹی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حسن سلوک کیا جاتا ہے وہی معاشرہ حیا دار اور مثالی معاشرہ کہلاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک حیا دار معاشرے سے ماؤں کے ایسے شیر دل بہادر جوان پیدا ہوتے ہیں جو محمد بن قاسم بن کر اپنی بہنوں کی عصمت کی حفاظت کیلئے میدان میں اُترتے ہیں اور تاریخ وجغرافیہ بدل کر رکھ دیتے ہیں ۔ بدقسمتی سے آج کی ماؤں کو تو سوشل میڈیا سے فرست نہیں ملتی اور بالکل فضول قسم کے ڈراموں اور پوسٹوں کا نظارہ کرتے قیمتی وقت ضائع کردیتی ہیں۔ اللہ پاک کی ذات تو ہر بچہ کو فطرت سلیمہ پر پیدا کررہی ہے، مگر یہی والدین ہیں جنہوں نے اس ننھے بچے کو تربیت دے کر ایک انسان بنانا ہے یا لاپرواہی سے حیوان بنانا ہے۔ زمانہ قدیم میں ماں اپنے بچے کو گود میں لوری دیتے سلاتی اور وہ سب کچھ سکھا دیتی تھی کہ دنیا کیلئے مثال بن جاتا۔ گود میں پلنے والا وہ ننھا پودا ایک قد آور درخت بن کر لوگوں کیلئے سکون اور ٹھنڈی چھاؤں کا باعث بن جاتا۔ اگر ماں کی سوچ، فکر اور رویہ مثبت ہوگا تو ہی بچے بھی مثبت کردار کے حامل ہوں گے۔ آج ماں کی گود میں موبائل ہے۔ جدید سوشل میڈیا نے ماں کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ پہلے کبھی جو گھروں میں طاقوں پر سجائے قرآن پاک کا مطالعہ کیا جاتا تھا یا اسے روزانہ کم از کم چومنا ہی متبرک سمجھا جاتا تھا، آج وہ کیفیت بدل چکی ہے۔ صبح وشام، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے اور آتے جاتے ہر موقع پر جہاں قرآن کی تعلیم کو مدنظر رکھنا تھا وہاں موبائل پر نظر ہے۔ پھر جہاں موبائل ٹیکنالوجی کے فائدے بھی بہت ہیں وہاں نقصانات اور بربادیوں کا وسیع ساز و سامان موجود ہے۔ جدید میڈیا دنیا کو جو دکھا رہا ہے جو سکھا رہا ہے کسی سے چھپا نہیں، اسی کی پیروی کی جارہی ہے۔ گزشتہ چند عشروں سے اصلاح کی جگہ بگاڑ کی قوتوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آج جو نسل جوانی کی منزل عروج پر ہے اس کے قول وفعل اور رویوں سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ اخلاقی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا معاشرہ چند دنوں کا نتیجہ نہیں۔ بتدریج اخلاقی اقدار کی جگہ بداخلاقی، بدتمیزی اور تلخ رویوں کو پروان چڑھایا گیا، جس کی سزا آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔ کہیں مال دولت کی ہوس، کہیں اقتدار اور اختیار کی ہوس اور ذاتی مفادات اور خواہشات کی ہوس ہے۔ اس ہوس کو پورا کرنے کیلئے انسان ہی انسان کا دشمن بن رہا ہے۔ اخلاقی اقدار کو بالکل نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ ماں، باپ، بہن، بھائی، میاں اور بیوی کے رشتوں کا احترام اور لحاظ ختم ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں آج کے نوجوان انسانیت اور اخلاقی قدروں سے نابلد نظر آتے ہیں۔
اکیڈمی، تعلیمی اداروں، گلی بازار اور سڑکوں پر بائیک چلاتے اور ڈرائیو کرتے جہاں نوجوان لڑکیوں کو دیکھا جاتا ہے وہاں آج کے لوفر اور لفنگے نوجوان لڑکے کسی کی ماں، بہن اور بیٹی کا لحاظ کیے بغیر خود کو انسانوں سے بالکل الگ مخلوق سمجھتے ہیں۔ انتہائی بدتمیزی، تیزی رفتاری، غلط اوور ٹیکنگ، ہلہ گلہ، شور شرابا اور راہگیروں کو ہوٹنگ ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ایک ایسا ہی ناخوش گوار واقعہ ہمارے دوست میاں خرم رؤف کے سامنے پیش آیا جب وہ سڑک پر جارہے تھے ان کی آپ بیتی سے آپ خود اندازہ کریں کہ آج کے لفنگے نوجوان کیا گل کھلا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کسی کام کے سلسلہ میں سرکلر روڈ سے گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے اپنی عقبی سائیڈ سے نسوانی آواز سنائی دی’’ اوئے بے غیرتو جے میرا کوئی بھرا ہندا تے اوہ توانوں دسدا کس طراں کسے دی بہن نو چھیڑی دا اے‘‘۔ بائیک کو آہستہ کر کے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک لڑکی بعمر قریباً 15 سال بائیک چلا رہی تھی اور اسکے پیچھے 2 بائیک سوار لڑکے جن کی عمریں قریباً 20 سال ہوں گی، دانت نکالتے ہوئے
اس بیٹی کے پاس سے تیزی سے گزر گئے۔ انہیں رکنے کی آواز دی تو انہوں نے بائیک بھگا دی خیر تھوڑی دیر انکا تعاقب کیا تو وہ رک گئے ۔ اتنی دیر میں وہ بیچاری لڑکی بھی ادھر بائیک چلاتے پہنچ گئی۔ اسکی آنکھوں میں آنسو تھے، کہنے لگی ’’انکل یہ دونوں لڑکے کافی دیر سے میرا پیچھا کرتے اور نازیبا اشارے اور فقرات کستے، مجھے ہراساں کرتے آ رہے تھے۔ میں کوئی شوق سے بائیک نہیں چلا رہی میرا کوئی بھائی نہیں۔ میرے پاپا بیماری کی وجہ سے چارپائی پہ ہیں۔ میں نے مجبوری میں بائیک چلانا سیکھی اور ابھی ابو کی دوائی لینے سرکاری ہسپتال کے قریب میڈیکل سٹور پہ جا رہی ہوں‘‘ میں نے اسے تسلی دی ۔ دونوں نو عمر لڑکے جو شکل و حلیہ سے ہی لوفر لفنگے لگ رہے تھے، ان سے ہم کلام ہوا اور پوچھا، یار آپ کیوں اس بیچاری کو تنگ کر رہے تھے؟ میرا یہ جملہ زبان سے نکلا ہی تھا کہ ان میں سے ایک کہنے لگا ’’ مولوی صاحب اسی توانوں تے کج نہیں آکھیا جاو تسی اپنا کم
کرو‘‘۔ میں نے بائیک سے اترتے ہی ایک زور دار طمانچہ اسکی مرنڈا بوتل جیسی بوتھی پہ جڑ دیا تو وہ دونوں غصہ سے لال پیلے ہو کر کہنے لگے ہم تجھے دیکھ لیں گے تم ہمیں جانتے نہیں۔ ایک لڑکے نے پینٹ کا بیلٹ نکال کر میری طرف حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ جوں ہی میں نے اپنا لائسنسی پسٹل نکالا گولی چیمبر میں کی تو وہ دونوں دبک گئے پھر اللہ کے فضل سے دونوں کی بغیر صرف و صابن کے ٹھیک ٹھاک دھلائی کی۔ اتنی دیر میں چند لوگ مزید اکٹھے ہو گئے جب انہیں معاملے کا علم ہوا تو سب نے بقدر استطاعت اس کار خیر (دھلائی) میں حصہ ڈالا۔ پولیس کے حوالے کرنے اور ان پہ ایف آئی آر دلوانے کا موڈ تھا لیکن بیٹی نے کہاکہ انکل رہنے دیں انکو غیرت ہوئی تو ان کیلئے اتنا ہی کافی ہے ۔ ان دونوں نے ہاتھ جوڑ کر اس بیٹی سے معافی مانگی۔ان لفنگوں کی مکمل دھلائی و ڈرائی کے بعد انہیں جانے دیا۔ اس سچی کہانی لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے نوجوانوں کی اکثریت یہی خیال کرتی ہے کہ ماں بہن بیٹی بس وہی ہے جو ہمارے اپنے گھر ہے ۔ بائیک چلاتی ہوئی کسی بھی ماں، بہن اور بیٹی کو دیکھیں تو بجائے منفی سوچنے یا اپنی گھٹیا تربیت ظاہر کروانے کے یہ سوچنا چاہئے کہ یہ بیچاری لازمی کسی مجبوری میں بائیک پہ نکلی ہو گی۔ بائیک چلاتے ماں بہن بیٹی کو بھی چاہیے کہ باعزت طریقے سے باپردہ ہوکر اور ہیلمٹ پہن کر سفر کریں ۔ اور ٹریفک پولیس کو بھی چاہیے کہ ایسے لوفر، لفنگے اور آوارہ گرد لڑکوں کو پکڑ کر قانون کی گرفت میں لائیں۔ خراج تحسین کے لائق ہیں میاں خرم روف جیسے صالح شیر دل جوان جن کو قوم کی بیٹیوں کی عزت وعصمت کی پاسداری کا خیال ہے۔
قارئین! کیا معاشرے میں موجود بگاڑ کے ہم سب ذمہ دار نہیں؟ کیا بچوں کو بچپن سے ہی نیکی اور بدی کی پہچان کروانا ہمارا فرض نہیں؟ کیا ہمارے مدارس اور تعلیمی اداروں میں جدید ترین تعلیم کے ساتھ ساتھ سیرت کردار اور آداب زندگی سکھانے کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ہمارا کام صرف بچے پیدا کرنا اور تعلیم وتربیت کے بغیر معاشرے کے حوالے کر دینا کافی ہے؟ کیا اپنے بچوں کو جانوروں کی طرح ماردھاڑ کرنا، لوٹ مار کرنا، پیسہ کمانا، کھانا، پینا اور چھینا جھپٹی کی عادات سکھانا کوئی سودمند ہے ؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ آج کے بچے بڑے ہو کر بڑوں کا ادب احترام اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آئیں؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے نوجوان محمد بن قاسم بن کر امت مسلمہ کی بیٹیوں کی عزت کے رکھوالے بن جائیں؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ہماری بیٹیاں شرم و حیا کی پیکر بن جائیں؟ اگر ہم چاہتے کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر زن، زر اور زمین کی ہوس کے پجاری نہ بنیں بلکہ شرف انسانیت کے عالی شان مقام پر پہنچ جائیں۔ اگر ہم چاہتے کہ ہمارے بچے مستقبل کے مفیدترین شہری بن کر ملک وقوم کی حفاظت ترقی اور خوشحالی کا باعث بن جائیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں معاشرہ حقیقت میں امن و اخوت کا گہوارہ بن جائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ دنیا میں ایسا مثالی معاشرہ بن جائے جس پر دنیا رشک کرے تو پھر اپنے بچوں کی قرآن سنت کی تعلیمات کی روشنی میں تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا ہوگا۔ آج دنیا میں برپا اضطرابی کیفیت سے نجات کا واحد حل اسلامی اخلاق و اقدار اور روایات ہیں انہی پر عمل پیرا ہوکر ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔