آج کے کالمحافظ محمد قاسم مغیرہ

قومی رہنما کی تلاش

قاسم مغیرہ

یہ ہماری حرماں نصیبی ہے کہ پچاس فی صد سے زائد لوگ جمہوری و سیاسی عمل میں حصہ نہیں لیتے اور انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت وجود میں آتی ہے، ایک چوتھائی سے بھی کم لوگ اسے وژنری سمجھتے ہیں۔ بقیہ قوم کے نزدیک وہ چور اور ڈاکو ہوتی ہے۔ اور قوم کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ حکومت ختم ہوجائے۔ حکومت ختم ہوجانے پر حکومت کو چور چور کہنے والے اور وژنری کہنے والے اپنے اپنے مکالمے بدل لیتے ہیں۔ سٹیج پر نئے اداکار آتے ہیں۔ سکرپٹ وہی رہتا ہے۔ سکرپٹ رائٹر بھی نہیں بدلتا۔ تماشائی بھی اپنا اپنا کردار بدل لیتے ہیں۔ اب کچھ لوگوں کا کام اداکاروں پر ہوٹنگ کرنا اور کچھ کا کام بے جا تالیاں پیٹنا ہے۔ کم و بیش تین برس بعد ہر منتخب وزیراعظم کو یاد آتا ہے کہ اسے تو سول بالادستی کا علم بھی بلند کرنا ہے۔ یہ مکالمہ چوں کہ سکرپٹ کے مطابق نہیں ہوتا۔ اس لئے پردہ گرجاتا ہے۔ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے پاس حکومت کو گھر بھیجنے کے کئی طریقے ہیں جن میں مارشل لاء سے لے کر، عدالتی فیصلوں، اسمبلی کی تحلیل، استعفیٰ اور تحریک عدم شامل ہیں۔ ہر وزیراعظم کو گھر جانے کے بعد یاد آتا ہے اسے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بننا ہے اور دوبارہ غیر جمہوری قوتوں کا سائبان ملنے تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہی بنے رہنا ہے۔ اس واردات سے چند قوتوں کے پست مفادات کی تشفی تو ہوجاتی ہے لیکن عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ انصاف، خوش حالی اور عزت نفس ان کے لئے ایک نایاب جنس بن گئی ہے۔ اس سارے منظر نامے میں سب سے زیادہ فائدہ فصلی بٹیرے اٹھاتے ہیں۔ جو بہ وقت ضرورت کوئی بھی خوش نما نعرہ لگا کر کسی بھی جماعت کا ساتھ دے سکتے ہیں اور انہیں قبول کرنے والوں کے پیش نظر کوئی طویل المدتی ترقیاتی منصوبہ نہیں ہوتا بلکہ وقتی فائدہ اور پست مفادات ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے کیوں کہ ( مفاد پرستی کی) سیاست میں کچھ حتمی نہیں ہوتا۔ اگر سیاست دان اس واردات کو بدلنے کے لئے سنجیدہ ہیں تو انہیں کچھ سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ فصلی بٹیروں پر سیاسی جماعتیں اپنے دروازے بند کرلیں۔ انتخابی قوانین میں ترمیم کرکے آزاد امید واروں کے انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کی جائے۔ آزاد امیدوار منتخب ہوکر ہارس ٹریڈنگ کرکے جمہوری عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔بڑی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ قوم پرست جماعتوں کو اپنے اندر ضم کرلیں۔ قوم پرست جماعتوں کے سربراہ کسی خاص لسانی گروہ کا نام تو لیتے ہیں لیکن عملاً ایسے اقدامات نہیں کرتے کہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا ہوسکے۔ وطن عزیز میں پولیٹیکل پولرائزیشن اور نفرت ختم کرنے کے لئے وطن عزیز کو ایسے رہنما کی شدید ضرورت ہے جو واقعتاً رہنما ہو۔ جو کسی ایک لسانی گروہ، ایک صوبے یا کسی ایک مسلک کا نمائندہ نہ ہو بل کہ سب کا رہنما ہو۔ جو کراچی سے خیبر تک سب کو ایک لڑی میں اس طرح پرودے کہ قوم سیسہ پلائی دیوار بن جائے اور تمام نفرتیں دم توڑ جائیں۔ جو ملک کو اپنی جاگیر اور جماعت کو اپنا کارخانہ نہ سمجھے۔ جو اتنا جمہوری ہو کہ اپنی جماعت میں نئے لوگوں کو خوش آمدید کہے۔ جو نہ صرف خود قائد ہو بلکہ قائد ساز بھی ہو۔ جو جماعت کو اپنے خاندان کی اجارہ داری کے بجائے نئے لوگوں کی تربیت کا پلیٹ فارم بنائے۔ جس کے تربیت یافتہ لوگ معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہر ہوں۔
وہ قائد ایسا ہو کہ جو نہ صرف خود قانون پسند ہو بلکہ اپنی جماعت میں بھی قانون پسندی کی روش پروان چڑھائے۔ جس کے تربیت یافتہ سیاست دان ملک کی ترقی کے لئے اپنی خدمات پیش کرے۔ ایک ایسا قائد جو عوام کے درد کو اپنا درد سمجھے اور بحرانی کیفیت میں سب سے پہلے قربانی دے کر عوام کے لئے مثال قائم کرے۔ جسے اشرافیہ کلچر اور پروٹوکول سے نفرت ہو ۔جو ملک میں عدل و انصاف کے فروغ کا حامی ہو اور عدالتی اصلاحات کے ذریعے ملک میں فوری اور سستے عدل و انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ جو اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک کردے۔ انہیں نفع بخش بنائے۔ جو متبادل قیادت سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اسے خوش آمدید کہے۔ جو اپنے گرد خوشامدیوں اور درباریوں کو اکٹھا کرنے کے بجائے ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھے جو اس پر تنقید کرسکیں، اسے روک ٹوک سکیں۔ اور اسے ظلم سے باز رکھ سکیں۔ ایسا قائد کہ وطن عزیز کی ترقی ہی اس کی اولین ترجیح ہو۔ جو ترقی سے خوف زدہ نہ ہو۔ جو کمیشن اور کک بیکس کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دے۔ جو سیاسی تعصبات کے فروغ کے بجائے کے بجائے قوم سازی کے لئے کام کرے۔ جسے ہر پاکستانی اپنا لیڈر سمجھے اور جو ہر پاکستانی کو اپنا سمجھے ۔ جو اتنا انصاف پسند ہو کہ اپنے مخالف پر بھی ظلم نہ ہونے دے۔ایک ایسا قائد جو غیر جمہوری قوتوں کو سیاسی عمل میں مداخلت سے باز رکھ سکے۔ جس کے نزدیک سیاست یو ٹرن، پیمان شکنی اور مفاد پرستی کا نام نہ ہو بلکہ وہ سیاست کو ریاست کے نظم و نسق چلانے کا ایک ہنر سمجھے ۔ جس کی گفتگو ہر اہل وطن کے لئے فکری بالیدگی اور حب الوطنی کے ترفع کا باعث ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button