یوم قائد اعظمؒ اور تقریب عہد نو
ایم یوسف بھٹی
انجینئر جاوید صاحب کی حب الوطنی، خلوص اور میزبانی کو صد سلام کہ امارات میں 14سال کے قیام میں پہلی دفعہ کسی ایسے پروگرام میں شرکت کرنے کا موقع ملا کہ جس میں تمام شرکاء کے چہرے کچھ کر گزرنے کے جذبے سے چمکتے ہوئے نظر آئے۔ یہ پروگرام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش کی یاد میں رکھا گیا تھا جس عظیم ہستی کے بارے میں گاندھی نے کہا تھا،’’تاریخ عموماً رینگتے ہوئے سفر کرتی ہے مگر میں نے قائداعظم کی قیادت میں اسے ڈگ بھرتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔ تحریک قیام پاکستان کے اس تیز ترین سفر کو قائداعظم کے رہنما اصولوں، ہارڈ ورک اور اپنے مشن سے اخلاص کے جزبے نے پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے 30دسمبر 1930 کو اپنے خطبہ الہ آباد میں متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر کو قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت نے ممکن بنایا۔
قائد اعظم نے 1945ء میں جب لارڈ لنلتھگوو (Lord Linlithgow) کے دور میں مسلم لیگ کراچی کے اجلاس میں ’’تقسیم کرو اور نکل جائو‘‘ (Divide and Quit) کا نعرہ لگایا تھا تو اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ فقط 3سال کے مختصر ترین عرصے میں نہ صرف پاکستان معرض وجود میں آ جائے گا بلکہ قائد اعظم کی تاریخی جدوجہد آزادی کی وجہ سے ہندوستان کو بھی آزادی مل جائے گی۔ متحدہ ہندوستان کے باسی محکوم قوم رہے تھے اور ان پر ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں نے حکومت کی تھی۔ انڈین عوام کی اکثریت ان پڑھ تھی اور اپنے جائز حقوق سے نابلد تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوؤں کے سیاسی حقوق کے لئئے دسمبر 1885 میں آل انڈیا کانگریس کی پہلی بنیاد بھی ہندوستانی لیڈرشپ کی بجائے ایک انگریز ریٹائرڈ کلرک اے او ہیوم کی تجویز پر رکھی گئی تھی۔ بلکہ ہندوستانی سیاست دان تقسیم ہند کے بھی خلاف تھے۔ حتی کہ غلامی کے ہندوستانی سحر کے زیر اثر مولانا ابوالکلام آزاد بھی ہندوستان کی تقسیم کے خلاف ہو گئے اور جب انڈیا کو آزادی ملی تو انہیں’’انعام‘‘ کے طور پر ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم بنا دیا گیا۔ اس طرح انڈین بزدل رہنماؤں نے قائداعظم کو بھی قیام پاکستان کے مطالبہ سے دستبردار ہونے کی صورت میں بھارتی وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی تھی۔ لیکن قائداعظم دھن کے پکے نکلے جو اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور پاکستان حاصل کر کے دم لیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کا قیام ہندوستان سے پہلے عمل میں آ گیا یعنی پاکستان کی آزادی کا اعلان 14اگست کو اور ہندوستان کی آزادی کا ہوکہ 15اگست کو لگایا گیا۔
قائداعظم کی پیدائش کا دن اس تقریب میں کیا منایا گیا، ایسا لگ رہا تھا کہ تحریک تکمیل پاکستان کا عہد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بننے کے ایک ہی سال بعد زیارت میں قائداعظم کی 11ستمبر 1948 کو بے یارومددگار رحلت ہوئی اور لیاقت علی خان کو بھی 16اکتوبر 1951 کو لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا۔ پاکستان جس مقصد کے لئے بنا تھا بہت جلد اسے ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ جب سرمد خان، عارف شاہد اور راقم بر دبئی (Bur Dubai) ابراہیمی ریسٹورنٹ پر پہنچے تو استقبالیہ پر موجود عملہ ہمیں ایک بڑے گول میز پر لے گیا جس کے گرد 9کرسیاں لگی تھیں جسے خالی دیکھ کر سرمد خان اور میں حیرت سے عارف شاہد کی طرف دیکھنے لگے۔ انہوں بتایا کہ انجینئر جاوید صاحب نے مہمانوں کا استقبال کرنے کے لئے میری ڈیوٹی لگائی تھی جس وجہ سے ہمیں وہاں میزبان سے پہلے پہنچنا پڑا۔ خیر تھوڑی دیر بعد راس الخیمہ سے سفر کرتے ہوئے تقریب کے میزبان انجینئر جاوید صاحب بھی پہنچ گئے، جنہوں نے آتے ہی کھانے کے اس سب سے بڑے میز پر پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے جھنڈے لہرائے اور میز پر قائداعظم کی تصویر کو بھی نمایاں کیا۔
یوم قائد کی اس تقریب میں کم و بیش 30 سے 40 مرد و خواتین مہمانوں نے شرکت کی۔ خواتین کے بیٹھنے کا الگ انتظام کیا گیا تھا۔ ابراہیمی بوفے سسٹم ریسٹورنٹ تھا مگر مہمانوں کو میز پر ہر قسم کے مشروب، سٹاٹرز اور کھانے کی ڈشز فراہمی کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن گول میز پر بیٹھے مہمان (جن کو دیکھ کرگول میز کانفرنس یاد آتی رہی) ملکی مسائل، ان کے حل اور قائداعظم کے فرمودات کی روشنی میں پاکستان کے بہتر اور خوشحال مستقبل کے لئے اتنے پرجوش تھے کہ سب کے سب گھنٹہ بھر مذاکرات کرتے رہے جن میں پاکستان سے آئے ہوئے میڈیا پرسنز ڈاکٹر شاہد استقلال اور علی رضا (نظام ٹی وی)، ڈیلی ٹائمز کے کامران (جن کا تعلق قبائلی علاقہ وزیرستان سے تھا) جیٹ اونر اور چارٹر بروکر کیپٹن عامر شاہ (Midline Aviation Services)، لاہور کے معروف سیاست دان عظیم ملک اور پاک خیبر کے ندیم احمد صاحب شامل تھے۔ ان سب شرکاء نے مہمانوں پر زور دیا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے کردار سازی کا لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ امارات اور دیگر دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر بنایا جا سکے۔ اسی دوران کھانے کا دور بھی چلتا رہا جس کے بعد تمام مہمانوں کو نزدیکی حال میں ایک کنگ سائز کیک کاٹنے کے لئے لے جایا گیا جو اس حوالے سے انتہائی دلچسپ اور منفرد تھا کہ میزبان انجینئر جاوید صاحب نے اچانک ایک تھیلے سے دو بڑی تلواریں نکالیں جن کے ساتھ پہلے مہمانوں کی اکثریت نے سیلفیاں بنائیں اور پھر اس کے بعد کیک کاٹا گیا۔
یوم قائد کی یہ تقریب کرسمس ڈے سے بچنے کے لئے 23 اور 24 دسمبر کی درمیانی شب سجائی گئی۔ اس روز دو مہمانوں کا یوم پیدائش بھی تھا۔ پہلے ان دو مہمانوں کو تالیاں بجا کرHappy Birthday وش کیا گیا اور اس کے بعد اس بڑے کیک پر ملائم اور کوٹڈ کاغذ کی ایک شیٹ رکھی گئی جس پر قائداعظم کا ایک ارشاد، جو قائد نے اجلاس آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن منعقدہ 15نمبر 1942، میں فرمایا تھا جلی حروف میں لکھا تھا:مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔
اس تقریب کا اہتمام ورلڈ ایشیئن ورکرز آرگنائزیشن کے بانی اور روح رواں مکرمی انجینئرجاوید صاحب نے کیا تھا۔ کیک کاٹنے کے بعد چائے شائے کے لیئے ہم دوبارہ کھانے کی میزوں پر آ گئے جہاں سامنے کے ٹیبلوں پر خواتین مہمان بھی کیک کاٹ رہی تھیں۔ اس تقریب میں زیادہ وقت اس موضوع پر ڈائیلاگ ہوتا رہا کہ ہم سمندر پار پاکستانیوں اور پاکستان میں موجود عوام کو بھلائی کے کاموں اور پاکستان کو قائداعظم کے خوابوں کے مطابق از سر نو کس طرح منظم کر سکتے ہیں؟
یہ تقریب ساڑھے سات بجے شروع ہوئی اور ریسٹورنٹ کے بند ہونے سے تھوڑی دیر پہلے رات سوا بارہ بجے ختم ہوئی۔ اس دوران طے پایا کہ اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے اسی ریسٹورنٹ میں ایک ماہ کے اندر اگلی میٹنگ بھی رکھی جائے۔ سرمد خان اور میزبان انجینئر جاوید پورا وقت محفل پر چھائے رہے۔
محترم المقام انجینئر صاحب نے عارف ارشاد اور میرے ذمہ لگایا کہ ہم اجلاس کے نکات لکھ کر انہیں بھجوائیں اور اس مد میں اگلے اجلاس کا ایجنڈا بھی طے کریں۔