آج کے کالمغلام مصطفی

قیام پاکستان سے تکمیل پاکستان تک

غلام مصطفیٰ

قیام پاکستان کے بعد اس کی تکمیل کیلئے چند سالوں کے علاوہ باقی ماندہ کئی دہائیاں ضائع کردی گئیں، 1960 کے بعد پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ایسے اقدامات نہیں کئے گئے جو کسی بھی ملک کی تعمیرو ترقی کیلئے ضروری ہوتے ہیں، بدقسمتی سے آزادی کے بعد آنے والی قیادتوں نے ملک کی بھاگ دوڑ ان خطوط پر نہیں کی اور نہ ہی قائداعظم کے ان رہنما اصولوں کو اپنایا گیا جن کا ذکر وہ اپنی اکثر تقریروں میںکیاکرتے تھے بلکہ وہ دنیا میں اپنے قیام کے آخری لمحات تک پاکستان کو ایک آزاد ‘ خودمختار اور فلاحی ریاست بنانے پر کاربند رہے‘آج اگر ہم بطور ’’قوم ‘‘(معذرت کیساتھ جوبھی نہیں بن سکے)زوال کاشکار ہیں تو اس کے پیچھے یقینا ان رہنما اصولوں کی برخلاف ہے جس پر چلتے ہوئے ہم ترقی کرسکتے ہیں‘اگر ہمیں حقیقی معنوں میں ترقی کرنی ہے تو ہماری سیاسی قیادت اور حکمرانوں کو قائداعظم کے رہنمااصولوں کو اپناناہوگا ۔بانی پاکستان اورمملکت خداداد کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلے یوم آزادی پر پاکستانیوں کے نام خطاب میں فرمایا تھا کہ’’ آج آزاد اور خودمختار ملک پاکستان کا یوم آزادی ہے۔اس کے علاوہ آپ نے اپنے خطاب میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ملک بنانے میں بڑی قربانیاں دیں اور فرمایا کہ پاکستان ان کا ہمیشہ احسان مند رہے گا‘‘۔25دسمبر قائداعظم ؒکا یوم پیدائش ہے۔ وہ 1876ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور گیارہ ستمبر1948 ء کو کراچی میں ہی انتقال کرگئے۔قائد ایک باصلاحیت وکیل‘ ایک ایماندار سیاستداں اور ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی ‘ مذہبی آزادی عزت وقار اور حرمت کے حقیقی نمائندے تھے۔ قائداعظم کی انتھک محنت ہی کی بدولت ہی ہندوستان کے مسلمان متحدہوئے اور ان کی رہنمائی میں پاکستان کے قیام کیلئے جدوجہد کی تھی۔ یہ جدوجہد نہ صرف مثالی تھی بلکہ اس میں ہندوستان کے لاکھوں مسلمانوں نے ایسی ایسی قربانیاں دی تھیں جس کے تصور سے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔یہ قائد اور پاکستانی عوام کی خوش قسمت رہی کہ پاکستان کے قیام کو انہوں نے اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیا اور پاکستان سے متعلق علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر مکمل کی ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ قائداعظم پاکستان کیوں بنانا چاہتے تھے؟ اور کیوں انہوں نے اس کے قیام کیلئے جان لیوا جدوجہد کی اور اپنی نجی زندگی کے سنہرے شب وروز مملکت خدادا د پاکستان کے قیام کیلئے قربان دیئے؟اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ وہ یہ کہ قائداعظم مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوئوں کی ہرقسم کی غلامی سے نجات دلاناچاہتے تھے۔
1857ء کی تحریک آزادی میں مسلمانوں نے بھرپور کردارادا کیا۔ اس تحریک کے ذریعے ہندوستان اور برطانیہ میں موجودلوگوں نے برصغیر کیلئے ایک وسیع خود مختاری کا مطالبہ کیا تھا‘ ان مطالبات کے نتیجے میں 1885ء میں آل انڈیا کانگریس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دسمبر 1904ء میں بمبئی میں کانگریس کے اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کاآغاز کیا۔ ان کا شمار کانگریس کے ان ارکان میں ہوتا تھا جو ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور جدید خیالات کے مالک تھے ان میں مہتہ‘ ناروجی اور گوپال کرشنا گوکھالے شامل تھے۔ تحریک پاکستان کے آغاز سے قبل قائداعظم نے ہندوئوں کیساتھ دوستی اور تعاون کا ہاتھ بھی بڑھایا لیکن کانگریس رہنمائوں سمیت ہندوئوں کی اکثریت قائداعظم کی صلاحیتوں سے خوفزدہ تھی کیونکہ ہندو رہنمایہ بات جانتے تھے کہ برٹش انگریز متحدہ ہندوستان کی قیادت کسی ایسے شخص کو دیں گے جو نہ صرف باصلاحیت ہو گابلکہ وہ میرٹ پر بھی پورا اترتاہوگا اور اس وقت پورے برصغیر میں سوائے قائداعظم محمد علی جناح کے کوئی دوسری شخصیت نہیں تھی جسے ہندوستان کا وزیراعظم بنایاجاتا‘ کیونکہ قائداعظم پورے برصغیر میں باصلاحیت اور میرٹ پر مبنی شخصیت تھے یہی وجہ تھی کانگریسی اور ہندو رہنمائوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اگر قائداعظم متحدہ ہندوستان کے وزیراعظم بن گئے تو پھر ان کی اس سازش کا کیا ہوگا جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف تیار کررکھی تھی۔ حالانکہ قائداعظم پندرہ سال تک ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کرتے رہے اس دوران نے انہوں نے متحدہ ہندوستان کے قیام کی بات بھی کی‘ حالانکہ انکی ان کوششوں کواعتدال پسند ہندوئوں نے توبہت سراہاتھا لیکن کانگریس کے رہنمائوں کی اکثریت قائداعظم کے اس نظریے سے متفق نہیں تھی۔چنانچہ کا نگریس کے اس رویے سے دلبرداشتہ ہوکر قائداعظم نے قیام پاکستان کی تحریک کے لئے جدوجہد تیز کردی اوراسے آگے بڑھاناشروع کردیا۔ حالانکہ 1935 سے لیکر1947 ء تک قائداعظم کاانداز سیاست جارحانہ نہیں تھا‘ 1940 میں لاہور کے منٹو پارک میں ہندوستان بھر سے آئے مسلمانوں کے ایک بڑے اورعظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے 1946 ء میں کیبنٹ مشن پلان کو منظور کرلیاتھا۔ بی جے پی کے سابق وزیرخارجہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’جناح‘‘میں واضح طور پر لکھاہے کہ پاکستان بنانے میں نہرو اور پٹیل نے اہم کردارادا کیاتھا اگر کانگریس کیبنٹ مشن کے پلان کو منظور کرلیتی تو پاکستان نہیں بنتا اور نہ ہی اتنا خون خرابہ ہوتا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم نے نہ صرف حکومتی پالیسیوں کو استوار کرنے کیلئے کام کیا بلکہ ہجرت کرکے مملکت خداداد پاکستان آنیوالے لاکھوں لوگوں کی فلاح و بہبود اور آباد کاری کیلئے بھی کام کیا۔ انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال بھی کی‘ قائداعظم قیام پاکستان کے فوراً ملک کیلئے ایک مربوط آئین بھی تشکیل دیناچاہتے تھے جس کا حکم بھی انہوں نے دیاتھا۔سب سے پہلے آئین کا ڈھانچہ 1956 ء میں حسین شہید سہروردی صاحب نے تشکیل دیاتھا۔
علامہ محمد اقبال کے نظریات کا قائداعظم محمد علی جناح پر بہت زیادہ اثر تھااور اسی اثر کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی بلکہ یہاں تک لکھا گیاہے کہ علامہ اقبال نے ہی قائداعظم کو لندن میں خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے ہندوستان کی سیاست میں شامل ہونے پر رضامند کیا تھا۔ حالانکہ ابتداء میں علامہ اقبال اور محمد علی جناح دو مختلف خیالات کے مالک تھے۔ ہندوستان میں مسلم برادری کے حالات کودیکھتے ہوئے علامہ اقبال کا خیال تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح کو مسلمانوں کی رہنمائی اور قیادت کیلئے آگے آناچاہیے کیونکہ علامہ اقبال جانتے تھے کہ جناح ایک قابل اور مخلص شخصیت ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی وفات( 1938ء ) سے پہلے ہی قائداعظم محمد علی جناح کے خیالات کو آہستہ آہستہ تبدیل کرنا شروع کردیاتھا اور آخر ایک وقت ایسا آگیا جب قائداعظم نے علامہ اقبال کے خیالات کو قبول کرلیا۔ بعدازاں قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے ایک خط کے ذریعے بتادیاتھا کہ انہوں نے علامہ اقبال کے اس نظریہ کو قبول کرلیاہے جس میں علامہ اقبال نے کہاتھا کہ ’’ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن ہوناچاہیے۔‘‘ قائداعظم نے علامہ اقبال کے اس نظریے پرمکمل اتفاق کرتے ہوئے علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع کردی تھی۔کیونکہ علامہ اقبال کے نزدیک مسلم تشخص ایک قابل ستائش چیز تھی اس لئے علامہ اقبال سمجھتے تھے کہ مسلم تشخص کو برقرار رکھنے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور قیادت کیلئے قائداعظم سے بہتر کوئی دوسری شخصیت نہیں ہوسکتی اور پھر وقت نے یہ فیصلہ بالکل درست بھی ثابت کردیا۔
قائداعظم محمد علی پر علامہ اقبال کے سیاسی اور ذاتی عقائد کے اثرات 1937ء سے ظاہر ہونا شروع ہوئے اب محمد علی جناح تبدیل ہوچکے تھے‘ اس دور میں محمد علی جناح اپنی تقریروں میں اسلام کے نظریات پر بھی بات کرتے تھے اور عوامی مقامات پر بھی اسلامی روایات کا ذکرکیا کرتے تھے۔اب محمد علی جناح کے قول و عمل میںکچھ چیزیں بالکل بدل سی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود محمد علی جناح نے اپنی تقریروں میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی بات جاری رکھی۔قائداعظم ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرز حکمرانی کو اصل حکمرانی کا عملی نمونہ وعمل سمجھتے تھے۔ اس لئے یہ کہنا کہ قائداعظم ایک سیکولر تھے غلط ہوگا‘ جو لوگ انہیں سیکولر سمجھتے ہیں وہ ان کی تقاریر سنیں اور پھر انہیں اسلامی تاریخ اور ثقافت کے تناظر میں پرکھنے کی کوشش کریں اور شاید یہی تبدیلی تھی جس نے محمد علی جناح کی گفتگو میں ایک واضح فطری اسلامی مملکت کا تصور پیدا کیا تھا۔اس تبدیلی ہی نے محمد علی جناح کو دنیا میں اپنے قیام کے آخری ایام تک علامہ اقبال کے نظریات کا حقیقی طالب بنا دیا تھا‘ محمد علی جناح اقبالی نظریات یعنی اسلامی اتحاد‘ اسلامی نظریہ آزادی‘ انصاف اور مساوات‘معیشت اور حتیٰ کہ نماز کے پڑھنے تک سے متاثر نظر آنے لگے تھے‘ قائداعظم محمد جناح علامہ اقبال کی سوچ اور فکر سے کس حد تک متاثر تھے اس کا اندازہ 1940ء میں کی گئی ان کی ایک عوامی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ’’اگر مستقبل میں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی مملکت قائم ہوئی اور مجھ سے کہا جائے کہ اس طرز حکمرانی اور علامہ اقبال کے کام میں بہتر کونسا ہے تو میں‘ اقبال کے کام کو ہی ترجیح ددوں گا اور اسی کاانتخاب کروں گا۔
(جاری ہے۔)

جواب دیں

Back to top button