آج کے کالمایم یوسف بھٹی

سیاست دان بمقابلہ پاک فوج

ایم یوسف بھٹی

حیرت انگیز حد تک ایک سنیئرکالم نگار نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ پاکستان کو یہاں تک پہنچانے میں سیاست دانوں کے علاوہ مقتدرہ کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔ مقتدرہ کا لفظ عموماً اسٹیبلشمنٹ کے لئے بولا جاتا ہے جو ان چند مخصوص جرنیلوں کے گروپ کو کہتے ہیں جو آرمی چیف کی سربراہی میں ملکی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں جن معاملات کی نگرانی کی اصل ذمہ داری ایک جمہوری ملک میں سیاست دانوں کی ہوتی ہے۔ بعض کالم نویس مقتدرہ اور اسٹیبلشمنٹ کی بجائے براہ راست ’’فوج‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں مثلاً یہ لکھا جاتا ہے کہ، ’’فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
اب اگر ایک لکھنے اور مشاہدے کی طاقت رکھنے والا قلم کار بھی ہماری ابتر صورتحال کی اصل وجوہات کو نہیں جانتا تو اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
فوج کا کام سیاست کرنا ہے ہی نہیں تو پھر بھی اگر وہ سیاست کرتی ہے یا اس میں مداخلت کرتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیاست دانوں کے کرنے کا کام کیا رہ جاتا ہے؟
یہ ایسا سوال ہے کہ جس کا صحیح جواب اس وقت تک ڈھونڈنا ممکن نہیں ہے جب تک سیاست میں پھیل چکی گندگی کا جائزہ نہیں لیا جاتا اور اس کا صفایا نہیں کیا جاتاہے۔ اول ہمارے مقامی مسلم معاشروں کی تہذیب و ثقافت، اخلاقی و شعوری اقدار اور نفسیات کے اعتبار سے ہمارے ہاں مغربی جمہوریت کا کوئی کام ہی نہیں ہے کہ تاریخ کو کھول کر دیکھ لیں کہ ماضی قریب میں افغانستان سے آنے والے مغل اور انگلستان سے آنے والے انگریز اقلیت میں تھے جنہوں نے برصغیر پر صدیوں تک کامیاب حکومت کی (تب متحدہ ہندوستان میں جمہوریت رائج نہیں تھی)۔جو تجزیہ کار اور نام نہاد سیاسی دانشور جمہوریت کو دنیا کا بہترین نظام حکومت قرار دیتے ہیں اور جواز پیش کرتے ہیں کہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے تسلسل ہی سے بہترین جمہوری نظام کو عمل میں لایا جا سکتا ہے ان سے کوئی پوچھے کہ منظر پر موجود سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادتوں سے ملک و قوم کے لئے خیر کی کونسی توقع وابستہ کی جا سکتی ہے مثال کے طور پر جمہوری عمل کے ذریعے بھٹو اور شریف فیملی کی وراثتی سیاست کو پانچ پانچ سال کے لئئے بار بار آزمایا جاتا رہے یاوراثتی سیاست کی بجائے عمران خان اور پی ٹی آئی کی فسطائیت کو ٹرائی کیا جائے جس میں انہی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے بھگوڑے شامل ہیں؟
ہمارے ہاں نظام، نظریات اور قانون کے بدلنے کی آج تک بات نہیں کی گئی ہے۔ آپ عرب ممالک کی مثالی ترقی کو ہی دیکھ لیں کہ ہم وقفے وقفے سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کے سامنے جا کر ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ کیا وہاں دنیا کا بہترین نظام حکومت جمہوریت رائج ہے؟ قطر دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔کیا وہاں جمہوری حکومت ہے؟ ان ممالک کے پاس تو ہماری طرح کا دنیا کا بہترین نہری نظام یا ہمارے جیسے قدرتی وسائل بھی نہیں ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم غیر ترقی یافتہ ہیں اور وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ اور امیر ہیں؟
اس جمہوری عمل میں کوئی لاجک نہیں کہ سیاسی نمائندے پارلیمنٹ میں پہنچ کر یا محکموں کے قلم دان سنبھال کر انگریزی طرز کی بیوروکریسی اور محکمہ جاتی بدعنوانی اور اقرباء پروری کا قبلہ درست کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ویسے بھی آج تک انگریز کا قانون اور مجریہ رائج ہے۔ جب نظام جمہوریت و حکومت بھی انگریز کا ہے اور قانون بھی انگریز کا ہے تو درمیان میں ہم لوکل کون سا تیر مار سکتے ہیں۔ ہم عقل و معیار اور تعلیم سے بھی پیدل ہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں اسی طرح کا رگڑا لگ رہا ہے جس طرح چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کسی کمزور چیز کو لگتا ہے۔
نظام خلافت کو تو چھوڑیں اوپر سے جب بھی کسی متبادل نظام کی بات کی جاتی ہے تو اس کے مخالف برساتی کھمبیوں کی طرح زیر زمین سے باہر نکل آتے ہیں۔
خدا خیر کرے! اوپر سے ہمارے سیاستدان بھی ایسے ہیں کہ سیاست دان کہلانے کے باوجود وہ عوام کا ووٹ حاصل کرنے اور اس کی لاج رکھنے کی بجائے اپنی توجہ ایک غیر سیاسی ادارے پر مرکوز رکھتے ہیں جسے پاکستانیوں کی اکثریت اپنے ملک کی سکیورٹی اور سالمیت کی ضمانت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان جب سے آزاد ہوا ہے زیادہ عرصہ تک اس کی یہی صورت جاری رہی ہے۔ ہمارے سیاستدان نظریات، منصوبوں اور پالیسیوں کا خاکہ تیار کرنے کی بجائے وہ اپنا سارا وقت اقتدار تک پہنچنے کے لئے عسکری قیادت کی خوشامد اور اس کا سہارا ڈھونڈنے میں ضائع کر دیتے ہیں یا پھر وہ جرنیلوں پر تنقید کرتے ہوئے عوامی حمایت کو متحرک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ تینوں ادوار میں نون لیگ کا بیانیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہا، پیپلزپارٹی کو بھی اقتدار سے انہی اختلافات کی وجہ سے نکالا جاتا رہا اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے تو فوج دشمنی میں حد ہی کر دی جس وجہ سے 9مئی کے واقعات رونما ہوئے۔ گزشتہ تین عشروں پر محیط سیاسی مداخلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک کی زیادہ تر سیاست اب صرف اس کے گرد گھومتی ہے کہ عسکری قیادت کیا کرنا چاہتی ہے یا وہ کیا سوچ رہی ہے ۔
جمہوریت ہمارے ہاں اپنی تعریف کے اعتبار سے ایسی سیاست کو جنم دیتی ہے جو تنازعات کا ایک نہ ختم ہونے والا گورکھ دھندا ہے۔ خلافت کے برعکس جمہوریت بقول اقبالؒ ویسے بھی ایسا نظام حکومت ہے جس میں بندوں کو تولا نہیں جاتا بلکہ گنا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھٹو کے پہلے الیکشن میں کھل کر سامنے آئی تھی جب مشہور ہوا تھا کہ،پیپلزپارٹی کتے کو بھی ٹکٹ دے گی تو وہ کامیاب ہو گا۔ یا پی ڈی کی سابقہ حکومت آئین کے مطابق بروقت انتخابات کروا دیتی تو یہ بات دوبارہ کھل کر سامنے آنی تھی کہ پی ٹی آئی کسی گدھے کو بھی ٹکٹ دیتی تو اس نے جیت جانا تھا۔
خوش قسمتی یہ ہے کہ ہماری فوج ایک منظم ادارہ ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاست ایک منظم ادارہ نہیں بلکہ یہ لالچی اور اقتدار کے بھوکے لوگوں کا ایک ٹولہ ہے اور وہ بھی چوں چوں کا مربہ ہے۔ فوج اسی صورت میں اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے سکتی ہے جب اسے عوام کی حمایت حاصل ہو۔
قارئین کرام! آپ کو یاد ہو گا کسی دور میں ملک بھر میں فوجی مشقیں ہوا کرتی تھیں۔ عوام یہ وطن کے گیت اونچی آواز میں سنا کرتی تھی،’’ہائے نی کرنیل ہائے نی جرنیل‘‘،’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ اور ’’میریا ڈھول سپایا تینوں رب دیاں رکھاں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا ہے کہ عمران خان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے زیر اثر پی ٹی آئی کو چاہنے والے لوگ نہ صرف دل میں فوج سے نفرت کرتے ہیں، اسے ملکی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں بلکہ فوج کو سرعام گالیاں بھی دیتے ہیں حالانکہ دنیا بھر میں ہماری فوج کو آج بھی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
سیاست دانوں کی طرف سے فوج کے خلاف ان تابڑ توڑ حملوں کے بعد فوج کی عزت اور بطور ادارہ مفاد اسی میں ہے کہ اب فوج کو سیاست سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے مگر سوال پھر وہی ہے کہ ان سیاست دانوں نے جمہوریت کے نام پر جو منحوسیت پھیلی ہے اس کا قلع قمع کون کرے گا؟ خود سیاست دان خود کو سنوارنے کے لئے تیار نہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ سیاست دان بھی خود کو فوج کی طرح منظم کریں، حب الوطنی کا مظاہرہ کریں جس طرح فوج کرتی ہے اور جمہوریت ہی کو بطور نظام حکومت اپنانا ہے تو مزاحمت کی بجائے مفاہمت کی سیاست کریں اور جمہوری قاعدوں اور قوانین کی پابندی کرنا شروع کریں۔

جواب دیں

Back to top button