ایڈیٹوریل

عام انتخابات کیلئے سازگارماحول کی ضرورت

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے مزید دو دن دے دیئے ہیں، کل اتوار تک اب کاغذات نامزدگی جمع کرائے جاسکیں گے۔ اطلاعات کے مطابق میاں نوازشریف، عمران خان، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت قومی سیاست میں بڑے نام آٹھ فروری کو اپنے حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑیں گے۔میاں نوازشریف نے لاہور اور مانسہرہ۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں شہبازشریف نے لاہور اور قصور۔ بلاول بھٹو نے لاہور اور لاڑکانہ۔ عمران خان نے میانوالی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بونیر۔ مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ اسماعیل خان اورپشین ۔ خالد مقبول صدیقی نے کراچی سے ۔سراج الحق نے دِیر سے۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیر پائو نے چارسدہ سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت کی علالت کی وجہ سے اُن کے بیٹے چودھری سالک نے گجرات سے چودھری پرویز الٰہی کے مدمقابل کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اسفند یار ولی بھی علیل ہیں اسی لئے ان کی جگہ ان کے بیٹے ایمل ولی نے چارسدہ سے۔محمود خان اچکزئی نے قلعہ عبداللہ سے۔اختر مینگل نے خضدار سے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے چیئرمین جہانگیر ترین نے لودھراں جبکہ صدر عبدالعلیم خان نے لاہور سے اور حُروں کے روحانی پیشوا اور جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگاڑا نے خیر پور سندھ سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں۔مزید نام اور اُن کے حلقہ انتخاب کی تفصیلات کل شام تک واضح ہوجائیں گی۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد سکروٹنی کا مرحلہ اور پھر باقی وہ تمام مراحل جو شیڈول میں بتائے جاچکے ہیں۔ بہرکیف کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئےہیں مگر ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ تمام سیاسی شخصیات کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقعہ ملے۔ اور سبھی کو پوری آزادی کے ساتھ عوام سے رابطے کی آزادی ہونی چاہیے کیونکہ ایک طرف ہم عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف ایسی خبریں بھی تسلسل کے ساتھ سننے کو مل رہی ہیں جو انتخابی عمل کی شفافیت یعنی غیر جانب داری کو متاثر کرتی ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے بارہا کہا جارہاہےکہ اُن کے اُمیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھین کر پھاڑے جارہے ہیں یا انہیں جھوٹے کیسوں میں گرفتار کرنے کی دھمکیاں دیکر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات دراصل عوامی عدالت ہوتے ہیں جہاں ووٹرز اپنی بصیرت اور تجربے کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو پرکھتا ہے اور کسی ایک کو قیادت کے لئے منتخب کرکے باقی سب کو مسترد کردیتا ہے اِس لئے یہ واحد کام جو عام پاکستانی ووٹر کا آئینی حق ہے اُسے پوری آزادی سے کرنے دینا چاہیے اور عام ووٹر کے فیصلے کو تسلیم بھی کیا جانا چاہیے ماضی میں بھی ’’حالات‘‘ اور’’فضا‘‘جس جماعت کے حق میں ’’سازگار‘‘ رہی، تاریخ گواہ ہے کہ اِس کو نہ تو مخالف سیاسی جماعتوں نے قبول کیا اور نہ ہی عوام نے۔ بلکہ اِس کا انجام بھی بخیر نہ ہوا اور قبل ازوقت ہی اِسے گھر جانا پڑا۔ اِس لئے بہتر یہی ہے کہ اکھاڑے میں تمام پہلوانوں کو اُترنے کا برابر موقعہ ملنا چاہیے تاکہ جو بھی تگڑا پہلوان ہو وہ سامنے آجائے۔ یوں عوام بھی اُس کو قبول کریں گے اور دنگل بھی متنازعہ نہ ہوگا۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے سبھی کو سازگار میدان ملنا چاہیے، کسی موقعے پر ایسا تاثر پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ میچ یکطرفہ ہے یا اِس کو یکطرفہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر ہم اگلے پانچ سال سیاسی عدم استحکام اور سڑکوں پر استعفوں کے مطالبات نہیں سننا چاہتے تو ہمیں ایسے معاملات سے بچنا پڑے گا وگرنہ پھر وہی عدم استحکام ، جمہوریت اور جمہوری عمل کی تضحیک کے جابجا مظاہرے نظر آئیں گے، ہارنے والا تو ہار تسلیم کریگا نہیں لیکن جیتنے والا بھی شرمساری محسوس کریگا۔

جواب دیں

Back to top button