تاریکیوں کے ذمہ دار
محمد انور گریوال
چُھٹی ہونے میں کچھ دیرباقی تھی، نیم سرکاری سکول کے باہر بچوں کو لینے والوں کا رش تھا، گاڑیاں، موٹر سائیکل، رکشوں وغیرہ پر لوگ بچوں کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ سکول کی بیرونی سیڑھی پر سات برس کی ایک بچی بیٹھی تھی، گوری رنگت، نیلی آنکھیں، سادہ سا لباس۔ اس کے قریب ہی کھجور کے پتوں کی بنی ایک ٹوکری پڑی تھی، جس میں کچھ ٹافیاں ، چھالیا اور نمکو وغیرہ کے کچھ پیکٹ تھے ۔ جو وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرنے کی امید میں لئے بیٹھی تھی۔ انتظار کے لمحات گزارنے کے لئے وہ کاپی کے پھٹے ہوئے کاغذ پر پنسل سے کوئی تصویر بنا رہی تھی، شاید اسے لکھنا نہیں آتا تھا، ورنہ ممکن ہے وہ کچھ لکھ رہی ہوتی۔ کسی اہلِ نظر کے کیمرے کی آنکھ نے یہ تصویر محفوظ کرلی۔ اگلے روز وہ تصویر اخبار کی زینت بن گئی۔
بات ذرا آگے بڑھی تو رپورٹر نے تحقیق کر کے بچی کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ، کئی روز اُسی سکول کے باہر اُس کا انتظار کیا، دیگر مصروف جگہوں پر ڈھونڈا۔ کوشش بسیار کے بعد وہ بچی کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ دوبہنیں تھیں، دوسری اس سے چھوٹی تھی، ان کا والد کسی موبائل کمپنی کے ٹاور پر گارڈ کے فرائض سرانجام دیتاتھا ، جہاں سے وہ معمولی تنخواہ پاتا تھا۔ بچیوں کی والدہ بیمار تھی، دیگر ضروریات کے ساتھ ساتھ اُس کی دوائی کے اخراجات پورے کرنا بھی گھر والوں کے لئے ایک مسئلہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بچی اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی تھی، لکھنے پڑھنے اور کھیلنے کودنے کے دنوں میں وہ معاشی ذمہ داری میں اپنے باپ کی معاون تھی۔ بچیوں سے بات چیت کرنے پر معلوم ہوا کہ اُن کی خواہش ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ یہ خواہش کسی کارروائی کے طور پر بیان نہیں کی جارہی تھی، تصویر بنانے والا اِس جذبے کا چشم دید گواہ تھا۔رپورٹر کی اُن کے والد سے گفتگو ہوئی، نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ اس کی اپنی بچیوں کی تعلیم کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
رپورٹر نے سٹوری اخبار کو بھیجی، اخبار نے دوبارہ تصویر کی اشاعت کے ساتھ معقول کوریج دی۔ تیسرے ہی روز دوسرے ڈویژن سے ایک فون رپورٹر کو آیا، اخبار کے دفتر سے اُس کا نمبر حاصل کیا گیا تھا۔ فون کرنے والے کا کہنا تھا کہ وہ بچی کی تعلیم کے تمام تر اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہے، جس میں تعلیمی اخراجات کے علاوہ بھی اس بچی کا جو خرچہ ہو وہ بھی ادا کیا جائے گا۔ اچھے سے اچھے سکول میں پڑھانے کی آفر موجود تھی۔ حتیٰ کہ تمام اخراجات کا تخمینہ لگا کر سال بھر کی پیشگی رقم جمع کروانے کا بھی کہا گیا تھا۔ تاہم ایک شرط تھی کہ بینک اکائونٹ بچی کے نام کا ہی ہو۔ رپورٹر کی آنکھوں میں خوشی کے موتی چمکنے لگے، اُس کی سٹوری اپنی منزل کو پہنچنے کو تھی۔ یہ دلکش پیشکش لے کر وہ دوبارہ اس بچی کے والد کے پاس پہنچا، اسے پوری روداد سنائی، اسے بچی کے مستقبل اور غائبانہ صاحبِ خیر کے جذبات سے آگاہ کیا۔ اس انداز سے ماحول بنایا کہ والد کی انا بھی مجروح نہ ہو، وہ کوئی بوجھ یا احسان بھی محسوس نہ کرے، کیونکہ مدد کرنے والے نے غیر مشروط اور غائبانہ طور پر ہی مدد کا اعلان کیا تھا، صرف ایک ہی شرط (اور خواہش) تھی کہ بچی پڑھ جائے۔ رپورٹر نے اپنی کہانی سنائی اوربہت پُر اُمید نگاہوں سے بچی کے والد کی طرف دیکھنے لگا،اُسے بڑے اشتیاق اور شدت سے جواب کا انتظارتھا۔ چند ہی ساعتیں گزری تھیں کہ بچی کے والد نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اُس کا جواب پاکستانی معاشرے کے مجموعی رویے کی بھر پور عکاسی کر رہا تھا۔ جواب سُن کر رپورٹر کی آنکھوںمیں چمکنے والے آس کے ستارے بجھ گئے، اس کی اُمیدوں کا محل ریت کی دیوار کی طرح زمیں بوس ہو گیا، غریب ،معصوم اور ذہین بچی کے روشن اور تابناک مستقبل کے بارے میں سہانے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اُس کا کیا تھا، وہ تو ایک پُل کا کردار ادا کرنا چاہتا تھا، وہ تو رابطے اور مدد کا ایک ذریعہ بننا چاہتا تھا۔
بچی کے والد کا جواب جس طرح رپورٹر کی سماعتوں پر بجلی بن کر گِرا، جن صاحب نے مدد کی آفر کی تھی، اُن کے لئے اور بھی زیادہ تکلیف دہ بات تھی، جو شخص غیر مشروط اور کھلی مدد کے لئے تیار ہو، جس کی آفر خالصتاً نیک نیتی پر مبنی تھی، اُس پر کیا گزری ہوگی ؟ اس کا اندازہ وہی نیک خصلت انسان ہی لگا سکتا ہے۔ بچی کے والد نے کہا کہ ’’۔۔۔ہم غریب لوگ ہیں، بچی کو پڑھا کر ہم نے کیا کرنا ہے، یہ تو پرایا دھن ہے، ٹافیاں وغیرہ فروخت کرکے چار پیسے کما لاتی ہے، ہمیں گھر کی ضرورت ہے، اگر کسی نے مدد کرنی ہے، تو ہمارا گھر بنوا دے اور میری بیوی کے علاج کا خرچہ دے دے ۔‘‘ رپورٹر چونکہ رابطے کا ہی ذریعہ تھا، وہیں کھڑے کھڑے صاحبِ دل شخص کو فون ملایا، بچی کے والد کے جوابات سے آگاہ کیا۔اُن صاحب نے افسردگی اور ٹوٹے دل کے ساتھ اپنی آفر یہ کہہ کر واپس لے لی کہ میں تو صرف بچی کو پڑھانے پر خرچ کر سکتا ہوں، چاہے وہ اخراجات کتنے ہی کیوں نہ ہو جائیں، کسی اور مد میں نہیں۔
یہ واقعہ پوری دیگ سے ایک چاول والی مثال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے ہاں،پاکستان بھر میں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، کوئی ہوٹلوں، دکانوں اور گھروں میں مزدوری کر رہے ہیں، کوئی ورکشاپوں، حجام کی دکانوں یا دیگر کام سیکھ رہے ہیں، کوئی آوارہ گردی کر کے زندگی کو تاریکی کے غاروںمیں دھکیل رہے ہیں، جو بعد میں جرم اور نشہ کی زندگی کی طرف پلٹ جاتے ہیں، کوئی بھیک مانگ رہے ہیں۔ کام سیکھنے یا گھروں میں کام کرنے والے بھی مظالم اور ذلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ معاشرے کے لئے ناسور بن جانے والے یہ کروڑوں بچے پاکستانی حکمرانوں، مخیر حضرات، اساتذہ، دانشوروں، سرمایہ داروں اور پورے معاشرے کے لئے سوالیہ نشان ہیں۔ شاید یہ تمام طبقات اپنے اپنے مقام پر اس زوال کے ذمہ دار ہیں، ستم تو یہ ہے کہ معاشرے کی اجتماعی طور پر تربیت کا فقدان ہے،مخیر حضرات کی بھی کمی نہیں، بے شمار لوگ اپنا فریضہ نبھا بھی رہے ہیں۔ (معاشرے کی خدمت کرنے والے جذبے کے برعکس ایسے بچوں سے غلامانہ مشقت لینے والے امراء کی بھی کمی نہیں، تاہم یہ الگ کہانی ہے)۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اگر کوئی خدمت پر آمادہ ہے تو خدمت کروانے والے رکاوٹ بن جاتے ہیں، مستقبل کی تاریکیوں کے ذمہ دار شاید ہم سب ہیں۔