آج کے کالممحمد اکرم

68موڑ (اللہ والی) کی سماجی شخصیت

محمد اکرم

بنی نوع انسان کواللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات کادرجہ دے کرسب سے اعلیٰ اورنمایاں کردیا۔ اللہ کی ذات ہرطرح کی محتاجی سے بے نیاز ہے وہ کسی کی محتاج نہیں مگر سب اس کے محتاج ہیں۔معاشرے میں رہتے ہوئے اور معاشرتی زندگی بسر کرتے ہوئے انسان ایک دوسرے کا محتاج اورضرورت مند ہے۔کسی بھی انسان کاتعلق چاہے کسی بھی خاندان ،کنبے یا قبیلے سے ہو بادشاہ ہویافقیر،امیر ہویاغریب معاشرتی زندگی میں سب کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کی ضرورت پوری کررہے ہوتے ہیں۔یوں تواس دنیا میں بہت سارے شعبے ہیں جن سے انسان وابستہ ہوکر دوسرے انسانوں کی خدمت کررہا ہوتا ہے مگرتعلیم اورصحت ایک ایسا شعبہ ہے جس کی اہمیت اس معاشرے میں بہت زیادہ ہے۔جہاں ایک استاد روحانی باپ کا درجہ اختیار کرکے ایک قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتاہے وہاں صحت کے شعبے سے وابستہ ایک ڈاکٹر دوسرے انسانوں کا علاج کرکے انھیں صحت یاب کرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔شعبہ صحت میں بھی کئی شعبے ہیں ویسے توڈاکٹر ایک گولی (Pain Killer)دے کر انسان کی ساری تکلیف دورکردیتاہے آج کل جس قدر زور پکڑتی ہوئی مہنگائی ،گھریلو پریشانیاں، لڑائی جھگڑے ناانصافیاں ،بڑھتا ہوا ڈپریشن ، خوف اورفکر مندی سے انسان ذہنی تنائو کا شکار ہوجاتاہے اس کا نفسیات پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اس طرح کی بیماریوں کاعلاج کرنے کے لئے ایک ایسے معالج سے رجوع کرنا پڑتا ہے جودوائیوں سے زیادہ باہم گفتگو کرکے علاج کرتاہے گذشتہ دنوں میری ملاقات ایک ایسے ہی ماہر نفسیات ڈاکٹر لیاقت علی تبسم سے ہوئی جنھوں نے اپنی پریکٹس کاآغاز 1989 میں علامہ اقبال ٹائون لاہور کے ایک کلینک سے نفسیاتی مشیر کی حیثیت سے کیاتھا۔اپنے شعبے میں مزید مہارت حاصل کرنے اوراعلیٰ تعلیم کے لئے انھوں نے کراچی شہر کارخ کیا جوان دنوں یقیناً امن کا شہر ہوتا تھا، وہاں انھوں نے کلینیکل سائیکالوجی میں سپیشلائزیشن کی اورپی ایچ ڈی کا کورس ورک کیا۔ بعدازاں دوبارہ لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں بطور کلینیکل سائیکالوجسٹ (Clinical Psychologist) پریکٹس کاآغاز کیا 1999 میں انھوں نے اسلام آباد کے شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں شعبہ ذہنی امراض کے انچارج کی حیثیت سے کام کیا اسی دوران انھوں نے WHO(ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن)کوجوائن کرلیا اوراس ادارے کے تحت انھوں نے ایک سال تک ضلع باغ ،ضلع مظفر گڑھ اورضلع نیلم میں مختلف این جی اوز اورگورنمنٹ کے مختلف اداروں میں ٹریننگ دی۔
ان علاقوں میں ٹریننگ دینے کے حوالے سے ماہر نفسیات ڈاکٹر لیاقت علی تبسم نے بتایا کہ ارتھ کوئیک میں بچوں میں ذہنی امراض بیدار ہوگئی تھیں ان کاعلاج بھی کیا اوراس کے ساتھ ساتھ وہاں کے ٹیچرز اورمختلف این جی اوز کے ملازم کو ٹریننگ بھی دی تاکہ وہ خود سے اس طرح کے مریضوں کا وقتی طور پر علاج کرسکیں،مزید انھوں نے بتایا کہ سوات میں جب دہشت گردی کے دوران بہت سے بچوں کو ذبح کردیا گیا تھا بمباری کے دوران بہت سے سکولوں کو تباہ کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے بچوں کے اندر ذہنی مسائل پیداہوگئے۔ان ذہنی ونفسیاتی مسائل کے حل کے لئے انھوں نے وہاں پر نہ صرف کام کیا بلکہ وہاں کے ہسپتالوں میں پیرامیڈیکل اورمیڈیکل سٹاف کوٹریننگ بھی دی تاکہ وہ ان مریضوں کا بھی علاج کرسکیں جو جسمانی بلکہ ذہنی مریض تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے وہاں کے اساتذہ کوبھی تربیت دی تاکہ وہ بچوں کے نفسیاتی مسائل کو سمجھ سکیں اورپھر کسی حد تک ان مسائل کو حل کرسکیں مدین اوربحرین میں ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا وہاں بھی انھوں نے بطور قونسلر اپنی خدمات انجام دیں ۔ڈاکٹر لیاقت علی تبسم کی شخصیت میں انسانی خدمت کاجذبہ خاندانی وراثت ہے جس کے تحت وہ جانے انجانے لوگوں کو ہر طرح سے مدد کرکے گویا اپنی خاندانی روایات کوبرقرار رکھنے کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ اس کے لئے ہمہ تن کوشاں بھی رہتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت ان کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ اتنے بڑے بڑے اورمختلف شہروں میں پریکٹس کی ہے جہاں اور بھی بہت سارے ڈاکٹرز ہر وقت موجود رہتے ہیں اور لوگ ہر وقت ایسے ڈاکٹرز سے طبی امداد کے حوالے سے استفادہ کرتے رہتے ہیں توکیوں نہ اپنے قصبے کے بسنے والے جو جدید اورماہرانہ سہولیات سے محروم ہیںوہاں کے دیہاتی لوگ جسمانی و نفسیاتی مسائل کا شکارہیں اوران کے علاج سے محروم ہیںان کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔بس اسی جذبے میں انھوں نے کراچی،لاہور اوراسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں جانے کا ارادہ ترک کرکے تحصیل چیچہ وطنی کے گائوں 68 موڑ اللہ والی کا رخ کیا جہاں جدید سہولیات میسر نہیں ۔اس قصبے کے رہنے والوں کوانھوں نے جدید طریقۂ علاج سے آشنا کرایا اور بہت سے ذہنی اورنفسیاتی مریض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شفاء یاب ہو رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ دیہاتی سوچ رکھنے والوں کے اندر یہ شعور بیدار ہورہا ہے کہ نفسیاتی سطح پر جو مسائل ہوتے ہیں ان کا حل جادو، ٹونے ٹوٹکے پر نہیں بلکہ سائنسی بنیادوں پر اس طرح کے مسائل کاحل موجود ہے تاکہ ذہنی ونفسیاتی مریض ٹھیک ہوکر معاشرے میں ایک اچھے شہری بن کراپنا کردار ادا کرسکیں۔
اسی سوچ اور جذبے کوپروان چڑھاتے ہوئے انھوںنے چیچہ وطنی میں اپنے نانا مرحوم سائیں غلام قادر کے نام پر ’’القادر میڈیکل سنٹر‘‘ کے نام سے ایک ہسپتال بنایا۔اس کے ساتھ ساتھ نزدیکی چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی ایک ایک دن مختص کررکھے ہیں بہت سارے مریض اللہ کے فضل وکرم سے صحت یاب ہورہے ہیں انھوں نے بتایا کہ علاقے کے میڈیکل ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ان کے ہاں اس طریقۂ علاج کا شعور بیدار کیا جارہا ہے نتیجے کے طورپر اب میڈیکل ڈاکٹرز بھی نفسیاتی مرض کی تشخیص کرنے لگ گئے ہیں۔ڈاکٹر لیاقت علی تبسم نے 1985ء میں زمانہ طالب علمی سے ہی نفسیات کے اوپر لکھنا شروع کردیاتھا۔وہ اس وقت کے مختلف اوراہم اخبارات میں اس موضوع پر لکھتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی سے شائع ہونے والے نفسیاتی میگزین’’ نفسیات اورزندگی ‘‘کے عرصہ دراز تک اعزازی ایڈیٹر اور ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں ۔اسی موضوع پر ان کی ایک کتاب ’’نفسیاتی مسائل اورجدید طریقہ علاج‘‘شائع ہوچکی ہے ایک اور کتاب ’’تفسیر خواب نفسیاتی اورسائنسی پس منظر میں‘‘ اشاعت کے مراحل میں ہے۔

جواب دیں

Back to top button