سیاسی جماعتوں کے پرچم

شرافت علی عامر
سوشل میڈیا کے انقلاب کے بعد تخیلیاتی، تصوراتی اور جمالیاتی ذوق کے پیرائے کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ ایک بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے صارفین کی پذیرائی اور دلچسپی کو برقرار رکھنے بلکہ سے مزید بڑھانے کے لئے مختلف رنگوں کے بٹنوں کو بطور تحفہ دینے کا رواج شروع کیا جو سلور، گولڈن، ڈائمنڈ، پلاٹینم وغیرہ کیٹیگریز کو ظاہر کرتا ہے،جس کا مطلب کامیابی کے لیول کو ظاہر کرنا تھا، ان بٹنوں میں یو ٹیوب نے سرخ رنگ کی سہ اضلاعی یعنی سرخ رنگ کی تکون جسے عام طور پر’’پلے بٹن‘‘ کہا جاتا ہے لوگوںمیں تقسیم کیا جسے لوگوں بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے گھروں اور دفاتر میں آویزاں کرتے۔ رواں سال کے وسط سے ذرا پہلے نو مئی کی کوکھ سے جنم لینے والی نوزائیدہ سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی جس نے سات ماہ کی عمر میں ہی پائوں پائوں چلنا بلکہ دوڑنا شروع کر دیا ہے۔ کے جھنڈے کو غور سے دیکھا جائے تو اس میں بھی وہی سرخ رنگ کی تکون نظر آتی ہے جس سے لگتا ہے کہ یہ سرخ رنگ کی تکون بھی یقیناً اس پارٹی کا’’پاور بٹن‘‘ یا’’ پلے بٹن‘‘ہے جو اس نو وارد پارٹی کے جذبہ تعمیر و ترقی اور خوشحالی کو ظاہر کرتا ہو، خیر بات پارٹی پرچموں کی چل نکلی ہے تو بلا شبہ یہ پرچم اپنے ڈیزائن اور رنگوں کے امتزاج سے اس سیاسی جماعت کے نظریئے،پالیسی، انداز فکر اور طرز عمل کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کو تخلیق یا ترتیب دیتے ہوئے خاص طور پر ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس پرچم کے رنگ اس کا ڈیزائن پارٹی کی بہترین ترجمانی کر سکے کیوں کہ کسی بھی پارٹی کا پرچم اس کا پہلا خاموش تعارف ہوتا ہے۔ ماضی میں جب قومی اتحاد کے نام پر جماعت بنائی گئی تو اس پرچم پر نو ستاروں کو سجایا گیا جو نو جماعتوں کے اتحاد کی علامت تھا۔ اسی طرح جب پاکستان پیپلز پارٹی معرض وجود میں آئی تو اس کے پرچم میں خاص طور پر سبز رنگ یعنی خوشحالی کے استعارے کے ساتھ ہمت، جذبے اور قربانی کو ظاہر کرنے والے دو رنگ یعنی سرخ اور کالے رنگ کو برابر کی اوسط میں پرچم کا حصہ بنایا گیا، انتخابی نشان بھی تلوار اور تیر اسی قربانیوں اور ارض وطن پر جانثاری کی علامت ٹھہرے۔ بعد ازاں ہم نے دیکھا کہ وقت نے بہرحال اس پارٹی سے انتہائی بھاری سیاسی و شخصی قیمت وصول کی اور بانی چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی لخت جگر دخترمشرق کو جانیں دے کر اپنے پارٹی پرچم کی رنگوں اور اپنے انتخابی نشانی کی ترجمانی کو امر کرنا پڑا۔ مسلم لیگ جو اب نواز لیگ بن چکی اس کی سر سبز زمین کی علامت سبز رنگ نے ہمیشہ اس پارٹی کے لئے قدرے آسانیاں اور آسودگیاں ہی بانٹی ہیں کہ انہیں کبھی بھی پیپلز پارٹی والی صعوبتیں اٹھانے کو نہیں ملیں تاہم چلتی حکومتوں کے گرانے کے صدمے اس پارٹی کو تین بار سہنے پڑے جس کا ہر بار گمان سے بڑھ کر ازالہ کیا گیا۔ یعنی اس نازک اندام سیاسی جماعت کو بھی ما سوائے سیاسی نزلہ زکام کے کبھی کسی بڑی بیماری یا دشواری کا شکار نہیں ہونا پڑا۔ سبز اور سرخ رنگ کی مساوی پٹیوں پر مبنی پرچم والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی نے خود اپنے لئے یہ دو رنگ منتخب کئے اور سرد گرم کا شکار رہی، ایک بار حکومت کے گھوڑے پر سوار ہونے کے بعد اس گھوڑے نے اس جماعت کے سربراہ اور دیگر قائدین کو سیدھے جیل کی کال کوٹھڑی میں اتارا جہاں وہ ابھی تک اپنی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جے یو آئی یعنی جمعیت علما اسلام کا پرچم معمول سے ہٹ کر سفید اور کالے رنگ کی پٹیوں پر مشتمل ہے جس میں ایک باریک سفید پٹی کے بعد کالی پٹی اور پھر اس کالی پٹی کے بعد سفید پٹی اس پرچم کے رنگ اپنی جماعت کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں کہ یہ جماعت خود تو کبھی اقتدار میں نہیں آ سکی مگر حکومت چاہے دائیں بازو کی رہی ہو یا بائیں بازو کی یہ اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتی رہی ہے۔ پرچموں کے ڈیزائین، ان کی ترتیب اور ان کے رنگ بلا شبہ ان سیاسی جماعتوں کی سیاسی ترجمانی کرتے رہےہیں لیکن استحکام پاکستان پارٹی کا پرچم جس انداز میں تخلیق یا ترتیب دیا گیا ہے وہ اپنی جگہ منفرد ہے کہ پرچم کی زمین بنیادی طور پر سبز رنگ کی ہے جس پر قومی پرچم کی نمائندگی کرتا ہوا سفید رنگ کا چاند تارہ اسی تناسب کے ساتھ موجود ہے جس تناسب کے ساتھ یہ چاند تارہ قومی پرچم پر موجود ہے لیکن آئی پی پی کے پرچم نے قومی پرچم کے سفید رنگ کی جگہ سرخ تکوں اور سبز اور سرخ رنگ میں تفریق کرتی ہوئی ایک سفید تیر کی نوک کی مانند پٹی بھی شامل کی ہے جس کی بابت پتہ چلا ہے کہ یہ ملکی ترقی کے لئے صرف کی جانے والی قوت اور خوشحالی کے درمیان
امن و امان اور اقلیتوں کو وسط میں جگہ دے کر ان کے وقار کو محفوظ اور ترقی و امن کو محفوظ تر بنایا گیا ہے ، ترقی کے اعتبار سے اس سفید پٹی کو شاہرائے ریشم اور اس کے پیچھے سرخ تکون کو خوشحالی اور ترقی کے لئے بروئے کار لائی جانے والی قوت کے استعارے کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ حرف اختتام یہی ہے کہ ہو سکتا ہے واقعی اس بار بھی پرچم کی ترجمانی حقیقت ثابت ہو اور استحکام پاکستان پارٹی اپنے مضبوط ارادوں ، جوش و ولولے اور زیرک قیادت کی وجہ سے پاکستان کو اس حقیقی امن، ترقی اور خوشحالی سے متعارف کر سکے جس کے آج تک صرف نعرے لگائے گئے ہیں۔ کیونکہ اس پارٹی کی انتخابات 2024 میں شمولیت اس کا پہلا انتخابی دنگل ہو گا جس میں یہ اپنے آپ کو ثابت کرے گی۔باقی پارٹیاں جہاں مہنگائی کے طوفان سمیت دیگر سوالوں کے لئے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گی وہیں یہ پارٹی اس سوال آزاد ہو گی۔ ہاں پچھلی پارٹی کو خیر آباد کہنا اور نئی پارٹی بنانے کے بعد اپنی سابقہ پارٹی کے ناراض کارکنان کو کیسے منانا اور واپس اپنے ساتھ شریک سفر کیسے کرنا ہے یہ اس پارٹی کے لئے ایک چیلنج اور ان کی سیاسی ہنرمندی کا امتحان ہو گا۔