ایڈیٹوریل

الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2024 کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کر دیاہے۔ضابطہ اخلاق کے مطابق سیاسی جماعتیں،امیدواران اور الیکشن ایجنٹ نہ ہی کسی ایسی رائے کا اظہار کریں گے اور نہ ہی کوئی ایسا عمل کریں گے جو کسی بھی انداز میں نظریہ پاکستان یا پاکستان کی خود مختاری، سالمیت اور سلامتی کے خلاف ہو یا اخلاقیات یا امن و امان کے خلاف ہو یا جس سے عدلیہ کی آزادی یا خود مختاری متاثر ہو یا جس سے عدلیہ یا افواج پاکستان کی شہرت کو نقصان ہو یا اس سے ان کی تضحیک کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ بدھ کو جاری ضابطہ اخلاق کے مطابق صدر، وزیراعظم،سینیٹ کے چیئرمین،ڈپٹی چیئرمین، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وفاقی اور صوبائی وزراء، گورنرز، وزراء اعلیٰ، میئر، چیئرمین، ناظم، مشیران کسی بھی حلقہ انتخاب کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے تاہم ممبران سینیٹ و لوکل گورنمنٹ کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی۔ یوں تو ضابطہ اخلاق میں اسی سے زیادہ نقاط درج ہیں، کچھ نقاط پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تو کچھ پر بات کرنے سے روکا گیا ہے لیکن ہم دیکھتے رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو، جو خود پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں نے باہمی مشاورت سے ترتیب دیا ہوتا ہے، وہ خود روندتے ہیں۔ اہم قومی اداروں سے وابستہ شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایسا اب بھی ہورہا ہے۔ انتخابی عمل کی شفافیت پر اُنگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ مختص سے کہیں زیادہ اخراجات انتخابی مہم پر کیے جاتے ہیں اور پھر پکڑ سے بچنے کے لئے وہ کارکنوں اور ووٹرز کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ ضابطہ اخلاق کا ہر اِک نقاط توجہ طلب ہے لیکن اگر ہم اخلاقیات کا پہلو تھامے رکھیں تو سمجھ لیجئے نوے فیصد نقاط پر عمل ہوگیا لیکن سیاسی جماعتوں کے سربراہان جو بیانیہ خود متعارف کراتے ہیں وہی بیانیہ اُن کے امیدوار اور ووٹرز لیکر چل نکلتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی جماعت کا سربراہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی خلاف ورزی پر نااہل نہیں ہوا۔ بلکہ امیدوار بھی تنبیہ یا معمولی جرمانے کی ادائیگی کے بعد بچ نکلتے ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ بالکل اسی طرح ہماری سیاست بالخصوص انتخابی مہم میں بھی قیادت سے لیکر کارکن تک سب جائز ہوتا ہے۔ ووٹ کے حصول کے لئے بڑے تکنیکی طریقوں سے ترقیاتی کام بھی کرائے جاتے ہیں۔ بڑی برادریوں کو قیمتی تحائف دیئے جاتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ مل سکیں۔ اسی طرح زیادہ پرجوش کارکنوں بلکہ ووٹرز کو خوش کرنے کے لئے گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، ایندھن، موبائل فونز بھی دیئے جاتے ہیں ، اور کھانے پینے کے پرتکلف انتظامات، غیر معمولی تشہیر اور چراغاں پر اُٹھنے والے اخراجات کا تو شمار ہی نہیں۔ ہمیں یہ سوچتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنی ماضی قریب کی کارکردگی اور عہد حاضر کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیئے گئے منشور کی بجائے دوسری قیادت پر سنگین نوعیت کی الزام تراشی پر مبنی بیانیہ تشکیل دیتی ہے اور اسی پر ووٹ مانگتی ہے۔ حالانکہ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور ماضی قریب کی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابی مہم چلاتی ہیں۔ اسی لئے بطور قوم ہماری ناکامیوں کی فہرست میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس ووٹرز کو متوجہ کرنے کے لئے اپنی کارکردگی نہیں ہوتی لہٰذا کوئی دس سال پہلے کے کاموں کا حوالہ دیتا ہے تو کوئی پچھلی نسل اور کوئی تیسرا اپنے آبائو اجداد کے نام پر ووٹ مانگتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عام ووٹرز بالخصوص نئی نسل اِن کی باتوں پر کان نہیں دھرتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سیاسی قیادت کچھ کردکھانے کے لئے اقتدار کی منتظر نہ رہے بلکہ جو توانائی منتخب حکومت سے استعفیٰ طلب کرنے کے لئے صرف کی جاتی ہے اِسی توانائی کو بچاکر عوام کے لئے وہ کچھ کردکھائے جس کی ملک و قوم کو موجودہ حالات میں فوری ضرورت ہے، مگر کوئی ایسا نہیں کرتا۔ بہرکیف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ صدی سائنسی جدت کی صدی ہے، نوجوان نسل کا سب سے زیادہ ووٹ بینک ہے لیکن اِن کو متاثر کرنے کے لئے بظاہر سیاسی جماعتوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اور بسااوقات تو اُن کے دنیا میں آنے سے پہلے کے کارنامے اور ایسی شخصیات کے نام پر اُن سے ووٹ کا تقاضا کیا جاتاہے جنہیں نوجوان نسل نے نہ دیکھا اور نہ ہی سنا۔ اِس لئے سیاسی جماعتوں کو بیس، تیس سال پہلے والا طرز عمل بدلنا ہوگا تبھی نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کیا جاسکے گا۔ ملک میں عام انتخابات آٹھ فروری کو منعقد ہورہے ہیں، کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آج آخری تاریخ ہےاس کے بعد انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا پھر دیکھئے گاکہ جوضابطہ اخلاق ایوان میں موجود رہ کر حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے خود کئی نشستوں میں سرکھپائی کرکے ترتیب دیا تھا، اس کی دھجیاں کیسے اڑائی جاتی ہیں۔ معاملات کو ٹھیک کرنا ہو تو پہلے اُن کی خرابیاں دیکھی جاتی ہیں اور خود پہل کی جاتی ہے مگر یہاں پہل کوئی نہیں کرتا ، لہٰذا جو جیسا پہلے سے چل رہا ہے اُس سے مختلف ہونے کی قطعی اُمید نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے دوران ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتی ہیں اور نہ ہی کریں گی کیونکہ مخصوص مزاج کے ووٹر کو متاثر کرنے کے لئے ایسا کرنا اُن کی شاید مجبوری ٹھہرا ہے۔ اداروں اور شخصیات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ناقابل عمل وعدے بھی کئے جائیں گے اور پھر اقتدار ملا تو اُن کو بھول جائیں گے پھر کہیں گے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیاگیا۔ اگر سیاست دانوں کے وعدوں میں سچائی اور خلوص نیت ہوتی تو آج چالیس سال کے بعد بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ نہ لگایا جاتا۔

جواب دیں

Back to top button