احتساب کا کھوکھلا نعرہ
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ان گنت یعنی بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا ہے اِسی طرح بعض خوبیاں ایسی ہیں جو دوسری اقوام میں نہیں پائی جاتی لیکن ہم پاکستانیوں میں پائی جاتی ہے یوں ہم دنیا بھر میں اپنی پہچان آپ ہیں، ہم سا کوئی کہیں نہیں ۔ مثلاً ہم واحد قوم ہیں جو کرپشن کو برا نہیں سمجھتے اور ہمارے حکمران ہمیں کرپشن کے نت نئے طریقے بلکہ بسا اوقات تو شارٹ کٹ بھی سکھاتے ہیں۔ پہلے وہ کام خود کرتے ہیں اِس کے بعد عوام کو اِن حکمرانوں سے سیکھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ یوں بات بڑھتے بڑھتے بڑھ جاتی ہے اور ہم اِس معاملے میں نہ صرف تجربہ کار ہوجاتے ہیں بلکہ دنیا میں بھی اپنے کارناموں سے مشہور ہوجاتے ہیں۔ مگر افسوس ہوتا ہے چین اور جاپان جیسی اقوام پر جن کے حکمران نہ تو خود کرپشن کرتے ہیں اور نہ ہی عوام کو کرپشن کرنے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے حکمران بے چارے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور مخصوص وقت پر سیاست سے ریٹائرڈ ہوکر دریا کنارے مچھلیاں پکڑتے نظر آتے ہیں اور عوام کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں یہاں تک کہ اِن کی دکانوں پر کوئی سیلز مین بھی نہیں ہوتا صرف سامان پڑا ہوتا ہے کہ خریدو اور ایمانداری سے پیسے مشین یا باکس میں ڈال دو۔ اور اتنے ہی بے وقوف ہیں وہ لوگ جو ایمانداری سے سامان اٹھاکر پیسے رکھ کر چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ پیسے نہ بھی رکھیں تو اللہ تعالیٰ کے سوا کون دیکھ رہا ہوتا ہے مگر وہ ایسا کرتے ہیں۔ ان اقوام کی تربیت بہت ضروری ہے انہیں پاکستان لایاجائے اور بتایا جائے کہ ملک کو کیسے کھایا جاتا ہے، غریب کا خون کیسےنچوڑا جاتا ہے، لاشوں پر سیاست کیسے کی جاتی ہے، بدعنوانی کرنے کے لئے اداروں میں اپنے لوگ کیسے فٹ کیے جاتے ہیں۔ اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ چین اور جاپان اور اِن جیسے ممالک کی ’’اصلاح‘‘ ہوسکے۔ مگر عجیب ذہنیت ہے کہ وہ لوگ بدلنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
کسی نے بزرگ سے سوال پوچھا کہ وہ کونسی چیز ہے جو کھاتے جائیں مگر ختم نہیں ہوتی۔ بزرگ نے جواب دیا کہ ’’پاکستان‘‘ طاقت ور کھائے جارہے ہیں مگر ختم نہیں ہورہا۔لیکن میرا یقین ہے کہ جس رفتار کے ساتھ کھایا جارہا ہے یقیناً کوئی نہ کوئی ’’چن‘‘ ضرور چڑھے گا۔
ہمارے ملک کا نظام کیسا ہے اور کن ہاتھوں میں ہے۔ اِس کا اندازہ اِس لطیفے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ دو دوست کئی سال کے بعد ایک ٹرین میں اتفاقاً ملے۔ معمول کی بات چیت کے بعد جو دلچسپ بات ہوئی۔
پہلا دوست: تمہارا بیٹا نکھٹو اِس کی سنائو
دوسرا دوست: لوگوں کی کونسلنگ کرتا ہے اور انہیں راتوں رات امیر ہونے کے طریقے بتاتا ہے۔
پہلا دوست: جو جھوٹ پہ جھوٹ بولتا تھا، لوگوں کے مال پر نظر رکھتا تھا وہ؟
دوسرا دوست: وہ اب سیاست دان بن چکا ہے اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کے دعوے کرتا ہے۔
پہلا دوست: جو بڑا نیک تھا وہ؟
دوسرا دوست: اِس کی ہول سیل کی دکان ہے، زیادہ تر مال ذخیرہ کرتا ہے اور مارکیٹ میں قلت پیدا کرکے من چاہے نرخوں پر بیچتا ہے۔
پہلا دوست: جو بہت بہت زیادہ جھوٹ بولتا تھا؟
دوسرا دوست: وہ لوگوں کے تنازعات حل کراتا ہے۔
پس بھیا! ہمارا ملک ایسے ہی چل رہا ہے اور ایسے ہی چلنے کو ٹھیک سمجھا جارہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا حالانکہ مہذب معاشروں میں کرپشن کرنے والوں کو انتہائی پست کردار کا تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کسی پر کرپشن کا الزام آئے تو وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کرپشن کیسز کا سامنا کرکے عدالتوں سے بریت لے کر عوام کی نظروں میں اُجلے ہو جائیں ۔ باضمیر سیاست دان اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرکے عدالت سے بریت لے کر عوام کی نظروں میں اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ جنرل ( ر) پرویز مشرف نے سیاست دانوں کو این آر او دینے کی ایسی رسم ڈالی ہے کہ کرپشن میں ملوث ہر سیاست دان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے اسے کسی طرح این آر او مل جائے۔ سیاست دانوں کے خلاف کرپشن مقدمات برسوں سے زیر التواء تھے۔ عمران خان کے دور میں بھی احتساب کا نعرہ پورے جوش و خروش سے لگایاگیا اور عوام نے اِس سے امیدیں بھی باندھ لیں لیکن زیر التواء مقدمات عدالتوں میں بھیجنے کا عمل بہت سست رفتاری سے جاری رہا بالخصوص الیکٹبل ، حکومتی اتحادی اور اراکین اسمبلی تمام تر الزامات کے باوجود ابتدائی تحقیقات سے بھی مبرا پائے گئے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حزب اختلاف کے سرخیلوں نے اتحاد بنا لیا اور اس پورے عمل کو حزب اختلاف کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دے دیالیکن بہت سے مقدمات جو عدالتوں میں اب بھی موجود ہیں صاف شفاف طریقے سے سنے جاتے تو ملزمان آج جیلوں میں ہوتے لیکن چونکہ حکومتی پارٹی کو شیلٹر حاصل تھا اس لئے سارا عمل متنازعہ ہوگیا۔کہا جاتا ہے کہ اتحاد کا مقصد عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنا تھا عمران خان نے بھی اقتدار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا وہ بہت سی باتیں اشاروں کنایوں میں کرنے لگا تھا۔ عمران خان کو چاہے اقتدار چھوڑنا پڑتا اسے عوام کو پوری حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ چلیں جاتے جاتے سابق چیف جسٹس نے یہ گناہ اپنے سر لے لیا اور اب کرپشن مقدمات عدالتوں میں جانے لگے ہیں۔ سوال ہے سیاست دان اپنے خلاف مقدمات کو جھوٹا قرار دینے کا واویلا کرتے ہیں۔ اگر ان کے خلاف مقدمات جھوٹے ہوتے ہیں تو مقدمات کا سامنا کرکے عدالتوں سے بریت لینے کی بجائے این آر او کے کیوں خواہاں ہوتے ہیں؟ نیب مقدمات کوئی آصف زرداری اور شریف خاندان کے خلاف نہیں بلکہ کئی سو دیگر لوگوں کے خلاف بھی ہیں۔ یہ بات باعث شرم ہے بیرون ملکوں اور ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں کے گروہ ایسے لوگوں کے خلاف چور چور کی صدائیں لگاتے دکھائی دیتے ہیں جس سے نظریں شرم کے مارے جھک جاتی ہیں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال نے نیب ترامیم کالعدم قرار دے کر ملک اور عوام پر بڑا احسان کیا ورنہ کھربوں میں کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کی مقدمات سے جان بخشی ہو چکی ہوتی۔ جیسا کہ منصف اعلیٰ نے مقدمات کی سماعت میں تیزی لانے کا عزم ظاہر کیا ہے اس سے امید کی جاسکتی ہے ہمارا ملک ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں جرم کرنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔