پاکستان

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس میں فیصلہ محفوظ

پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

عدالتِ عالیہ میں کیس کی سماعت جسٹس عتیق شاہ اور جسٹس شکیل احمد نے کی۔

دورانِ سماعت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف مرکزی پارٹی کو نوٹس نہیں دیا تھا، پی ٹی آئی کی صوبائی کابینہ کو بھی نوٹس جاری ہوا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ اس لیے بھی نہیں گئے کیونکہ رہنماؤں کی گرفتاری کا خدشہ تھا، فیڈریشن کے پیشِ نظر کسی بھی ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے، کل تک انتخابی نشان نہ ملا تو ہمارے امیدوار آزاد تصور ہوں گے، انٹرا پارٹی انتخابات کا طریقہ کار پارٹی نے خود طے کرنا ہوتا ہے، اگر انٹرا پارٹی انتخابات کو تسلیم نہ کیا گیا تو انتخابی نشان بلا نہیں ملے گا، الیکشن کمیشن معاملات کو تاخیر کا شکار کرتا آ رہا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر ایک پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہے، پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے، کیا 32 سوالات کسی اور پارٹی سے بھی پوچھے گئے؟

جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ الیکشن کمیشن کو شکایات پر خود فیصلہ کرنا چاہیے؟

بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن میں شکایات دینے والا پارٹی کا حصہ نہیں۔

اس موقع پر بیرسٹر گوہر نے عدالت کو پی ٹی آئی کے رجسٹرڈ ارکان کی فہرست فراہم کر دی اورکہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن نے ہمیں نوٹس جاری کیا ہے، کل کاغذاتِ نامزدگی کے لیے آخری دن ہے، ہمیں انتخابات سے باہر کرنا چاہتے ہیں،1962ء کے پولیٹکل پارٹی ایکٹ میں انٹرا پارٹی کا کوئی تصور نہیں تھا،2002ء میں انٹرا پارٹی انتخابات سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے کرانے کا کہا گیا۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے سوال کیا کہ کیا عام انتخابات کے لیے آپ کو پہلے سے نشان نہیں دیا گیا؟

بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ہر انتخاب پر ہم دوبارہ انتخابی نشان جاری کریں گے، ہمیں ہمارا انتخابی نشان جاری نہیں کیا جا رہا، ہم نے انٹرا پارٹی انتخات کرائے، 7 دن میں سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا، الیکشن کمیشن نے ابھی تک ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات ویب سائٹ پر جاری نہیں کیے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ویب سائٹ اور گزٹ میں شائع نہ کرنے سے کیا نقصان ہوا ہے؟

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پھر ہمیں ہمارا انتخابی نشان نہیں دیا جائے گا۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن میں جب پیش ہوئے تو وہ مطمئن نہیں ہوئے؟

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے جوابات جمع کیے وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہوئے، الیکشن کمیشن نے الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر بھی اعتراض کیا، ن لیگ نے جولائی میں انٹرا پارٹی انتخابات کیے، ن لیگ کے سرٹیفکیٹ کو ویب سائٹ پر جاری کیا گیا، درخواست گزار پلانٹڈ لوگ تھے، عدالت سے امید ہے کہ انصاف ہو گا، فیصلہ ہمارے حق میں ہو گا، ہم الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتے، اس وقت الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ درست نہیں، ہمارے 8 لاکھ 37 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، عثمان ڈار کی والدہ پر ہاتھ اٹھایا گیا، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، پنجاب میں ہمارے لوگوں کو پکڑا جاتا ہے، الیکشن سر پر ہیں، اس وقت الیکشن کمشنر کے استعفے کامطالبہ درست نہیں، چیف الیکشن کمشنر عہدے سے ہٹے تو الیکشن میں تاخیر ہو گی، الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواست گزار پلانٹڈ ہیں، کے پی میں پولیس پکڑتی بھی ہے تو صوبےکی روایات کو برقرار رکھتی ہے، کے پی میں ہمیں کچھ نہ کچھ تحفظ حاصل ہے، پنجاب اور دیگر جگہوں پر جو ہو رہا ہے افسوس ناک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button