استاد کو جینے دو
عبدالرزاق باجوہ
ایک استاد اور چیونٹی کی کہانی میں انیس بیس کا ہی فرق ہے،کہتے ہیں کہ جنگل میں ایک چیونٹی ہر روز صبح سویرے اپنے کام پر جاتی ، فوراً ہی اپنا کام شروع کر دیتی ۔چیونٹی بہت محنت سے کام کرتی، اس کی پیداوار بہت زیادہ تھی اور وہ اپنے کام سے خوش بھی تھی۔ جنگل کا بادشاہ شیر چیونٹی کے کام سے بہت حیران تھا کیونکہ وہ بغیر کسی مانیٹرنگ آفیسر کے کام کرتی تھی۔ شیر نے سوچا اگر چیونٹی بغیرمانیٹرنگ آفیسر کے اتنی زیادہ پیداوار دے رہی ہے، اگر وہ کسی آفیسر کی نگرانی اور رہنمائی میں کام کرے تو اس کی پیداوار اس سے کئی گنا زیادہ ہوجائے گی۔ شیر نے ایک لال بیگ کو جو دفتری امور کا تجربہ رکھتا تھا اور رپورٹ لکھنے میں بہت مشہور تھا، اسے چیونٹی کی مانیٹرنگ کے لئے آفیسر تعینات کر دیا،لال بیگ نے چیونٹی پر کنٹرول رکھنے کے لئے کام کی جگہ پر اس کے آنے اور جانے کے وقت کو نوٹ کرنے والا ایک بورڈ لگا دیا۔ چیونٹی کام اتنا زیادہ کرتی تھی کہ لال بیگ کو ایک اور مددگار کی ضرورت تھی جو اس کی تمام رپورٹس کو ٹائپ کرے،لال بیگ نے اس کام کےلئے اور فائلوں کو ترتیب دینے کےلئے ایک مکڑی کو تعینات کر دیا۔ شیر لال بیگ کے کام اور اس کی چاپلوسی سے بہت خوش تھا۔ شیر نے اس سے کہا کہ ایک گراف بنایا جائے، جس میں چیونٹی کی بڑھتی ہوئی پیداوار کی شرح درج ہو، تاکہ رپورٹ کو جنگل کے وزیروں مشیروں کے سامنے پیش کیا جاسکے،لال بیگ نے اس کام کےلئے ایک عدد کمپیوٹر اور پرنٹر خریدا، اور اس نے اس جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کےلئے ایک عدد ریٹائرڈ بھنورے کو بھی ہائر کر لیا۔ چیونٹی جو پوری لگن اور شوق سے اپنا کام کرتی تھی اب آئے روز کی میٹنگز اور کاغذی کارروائی میں اس کے وقت کا ضیاع ہونے لگا، جس سے اس کے اندر بیزاری پیدا ہونے لگی۔ شیر اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک داخلی آفیسر تعینات کرے، جو اس علاقے کی نگرانی کرے ، جہاں چیونٹی کام کرتی تھی اور یہ پوسٹ ایک ٹڈی کو دے دی گئی۔ اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے دفتر کام کرنے کے لئے ایک کارپٹ اور ایک کرسی خریدی۔ اسی طرح ٹڈی کو اپنے کام کےلئے ایک کمپیوٹر اور ہیلپر کی ضرورت تھی جو کہ اس نے سابقہ ڈیوٹی والی جگہ سے منگوا لئے تاکہ بجٹ کی ترتیب اور مینجمنٹ کا کام آسانی سے انجام دے سکے۔ جس ماحول میں چیونٹی کام کر رہی تھی اب جذبات سے خالی ہوچکا تھا،اب اس میں کوئی جوش و خروش باقی نہیں رہا تھا۔ اب کوئی بھی ہنسی خوشی نہیں رہتا تھا،سب ایک دوسرے کو جواب دہ تھے۔ سب اچھا کی جعلی رپورٹس بنتی رہیں، ایک روز شیر نے سرپرائز وزٹ کیا تو معلوم ہوا کہ سب اپنی نوکری پکی کرنے کے چکر میں ہیں جب کہ حقیقت میں چیونٹی کی پیداوار میں پہلے کی نسبت خاطر خواہ کمی واقع ہوچکی ہے اور اخراجات میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ شیر نے ایک اچھی پرسنیلٹی والے الو کو اپنا مشیر بنایا اور اس کو حکم دیا کہ وہ پروڈکشن میں کمی کی وجوہات کا پتہ لگائے، اور ان وجوہات کا کوئی مفیدترین حل پیش کیا جائے تاکہ اخراجات میں کمی کی جائے، الو نے اس کام میں تین مہینے لگائے،کئی جلدوں پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ پیداوار میں مشکلات کی اصل وجہ ورکرز کی زیادہ تعداد ہے لہٰذا ان ورکرز کی تعداد کو کم کیا جائے۔ اس بناء پر شیر نے حکم دیا کہ چیونٹیوں کو ہر ممکن طریقے سے نوکری سے نکال دیا جائے،کیونکہ چیونٹی میں اب کام کرنے کا جذبہ باقی نہیں رہا اور حکومتی خزانے پر بوجھ ہے۔
یہی صورت حال ایک استاد کی ہے جس نے ننھے پودوں کی اس انداز میں آب یاری اور کاٹ چھانٹ کرکے تناور درخت بنائے جو پھول، پھل ، ٹھنڈی چھاؤں اور دلکش نظارے پیش کرتے رہے،استاد نے ان تھک محنت، لگن اور شوق سے ایسے ہیرے تراشے، جنہوں نے جان ومال قربان کر کے وطن کا دفاع کیا،جو ملک وقوم کی عزت وآبرو کی علامت بن گئے، جب 1965 میں پاک وطن کے دشمن نے ناپاک جسارت کی تواس انداز سے ڈٹ کر دفاع کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی،اور دشمن نے برملا اظہار کیا کہ پاکستانی قوم کا مقابلہ ہتھیاروں سے نہیں کیا جاسکتا۔
یہ استاد ہی تھا جو بغیر کسی مانیٹرنگ کے ایسے لازوال ہیرے اور جواہرات کی پیداوار قوم کو دے رہا تھا،کبھی سکول اسمبلی سے قبل اور کبھی چھٹی کے بعد بچوں کو شوق سے بالکل مفت تعلیم اور رہنمائی دینا استاد کا کام تھا ،لیکن بدقسمتی سے چیونٹی کی مانند اس پر بھی نت نئے انداز سے تجربات کیے گئے طرح طرح کی مانیٹرنگ کا نظام رائج کیا گیا جس کے نتیجے میں استعداد کار میں واضح فرق پیدا ہوگیا ۔
میرے ایک دوست پرائمری کے استاد ہیں، کہنے لگے کہ ایک دور تو ایسا بھی آیا کہ یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے سروے میں اساتذہ کو محکمہ صحت کی ٹیموں کے ہمراہ سروے کے لئے گھر گھر بھیجا گیا اور حاملہ خواتین سے پوچھ کر ڈاٹا اکٹھا کرنے کی مہم چلائی گئی کہ بچہ کب پیدا ہوگا اور کتنے عرصے بعد سکول داخل ہو گا؟ ،کبھی استاد کو کلاس روم سے نکال کر پولیو ویکسی نیشن کے لئے گھر گھر بھیجا گیا،کبھی استاد سے مردم شماری کروالی گئی،کبھی استاد سے کرونا وبا کے دوران مساجد، مدارس میں نمازیوں کا فاصلہ چیک کروایا گیا تو کبھی مارکیٹوں کے ایس او پیز چیک کروائے گئے،کبھی استاد سے گھر گھر جا کر ووٹنگ لسٹوں کی ویریفکیشن تو کبھی نئے ووٹوں کا اندراج اور الیکشن ڈیوٹی کے لئے سیاسی پارٹیوں کے رحم وکرم پر پولنگ اسٹیشن پر بھیج دیا گیا، کبھی مردم شماری کروائی گئی اور معاوضہ ابھی تک نہ ادا کیا گیا، کبھی خوش حالی سروے تو کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اندراج کروانے استاد کو گھر گھر بھیجا گیا۔
استاد کو کورس، نصاب اور نظام تعلیم کی اصلاح کے ٹریننگ دینے اور ریفریشر کورسز کروانے کی بجائے اسے خوف و ہراس سے دو چار کردیا گیا ہے ،اس کے مالی اور محکمانہ حقوق دبا دیے گئے ہیں ،دیگر ملازمین اور استاد کی تنخواہوں میں بے تحاشا فرق پیدا کردیا گیا ہے ،کلاس روم میں مکمّل اختیار دینے کی بجائے اسے بطور کلرک، سویپر اور ڈاک تیار کرنے، لانے، لے جانے پر لگا دیا گیا ہے۔
استاد کو اپنا حق لینے کےلئے عدالتوں، سروس ٹربیونل اور محتسب اعلیٰ کے دروازے کھٹکھٹانا پڑے، فیصلے حق میں ہونے کے باوجود حق نہیں دیا گیا، جس کی زندہ مثال پنجاب میں 1995 اور 1997 میں سکیل 14 میں مستقل بنیاد پر بھرتی ہونے والے گریجویٹ انگلش ٹیچرز ہیں جن کو سکیل 9 والے ای ایس ٹی اساتذہ کی کیٹیگری میں شامل کرکے جونیئر کردیا گیا، عدالتوں اور سروس ٹربیونل کے فیصلے ہونے کے باوجود انگلش ٹیچرز کو سروس رولز 7A کے تحت اپ سنیارٹی بطور ایس ایس ٹی نہیں دی گئی اور وہ ابھی تک بطور ای ایس ٹی اپنے حقوق کے لئے صوبائی سیکریٹریٹ اور محکمہ تعلیم کے ضلعی دفاتر میں دھکے کھارہے ہیں ،این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرکے سروس جائن کرنے والے ایجوکیٹرز، ایس ایس ایز، اور اے ای اوز کو ابھی تک مستقل نہیں کیا گیا،پی ایس ٹی، ای ایس ٹی، ایس ایس ٹی اور ایس ایس کی پروموشن نہ ہونے کے برابر ہے،سرکاری ملازمین کے بچوں کے لئے سرکاری ملازمت کا کوٹہ ختم کیا جارہا ہے تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے پینشن گریجوایٹی اور لیو ان کیشمنٹ پر ناقابل یقین حد تک بھاری کٹ لگانے کے فیصلے کیے جارہے ہیں،جس کے نتیجے میں انتہائی قابل اور ذہین اساتذہ سروس کو خیر باد کہہ کر دوسرے محکمہ جات اور پرائیویٹ سیکٹر میں جارہے ہیں۔
پنجاب کے اکثر سرکاری سکولوں میں ہیڈماسٹر، ہیڈمسٹریس اور پرنسپل کی سیٹیں عرصہ دراز سے خالی پڑی ہیں جس کے نتیجے میں پنجاب کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم وتدریس کا عمل بری طرح متاثر ہورہا ہے،انرولمنٹ کی شرح تیزی سے گر رہی ہے،غربت سے تنگ اکثر غریب بچے اور بچیاں تعلیم کو خیر باد کہہ رہے ہیں،اکثر ذہین ترین بچے اور بچیاں نجی اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رخ کررہے ہیں اور والدین بھاری فیسوں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات اٹھانے پر مجبور ہیں۔
اگر استاد مالی و محکمانہ دشواریوں اور الجھنوں کا شکار رہے گا تو وہ کبھی دلچسپی، شوق اور لگن سے تعلیم وتدریس کا عمل جاری نہیں رکھ سکتا چاہے جتنا بھی مانیٹرنگ کا نظام سخت کردیا جائے،حکومت کو چاہیے کہ استاد کو عزت و تکریم دے،اساتذہ کے مالی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے،ان کو بروقت پروموشن دی جائے، جتنے ان کے حقوق واجب الادا ہیں جلد ادا کیے جائیں تاکہ ان کو بار بار دفاتر اور عدالتوں کے دھکے نہ کھانا پڑیں اور وہ پوری یک سوئی سے کلاس روم میں اپنے فرائض پوری دیانتداری اور شوق سے سرانجام دے سکیں ،اس کے نتیجے میں فروغ تعلیم کی شرح بھی سو فیصد حد تک پہنچ سکتی ہے۔