ایڈیٹوریل

انتخابی سرگرمیوں میں تیزی

ملک بھر میں عام انتخابات کے لئے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی سامنے آنا شروع ہوگئی ہے۔ اگرچہ ابھی انتخابی دفاتر، ریلیوں اور جلسوں تک نوبت نہیں پہنچی مگر ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ مکمل ہوتے ہی یہ سب کچھ بھی نظر آنا شروع ہوجائے گا، فی الحال تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کو حتمی شکل دے رہی ہیں، مسلم لیگ ن تو کم و بیش نئی سیاسی صف بندی مکمل کرچکی اب باقی سیاسی جماعتیں بھی اپنے تئیں اتحاد بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ریٹرننگ افسران آج سے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی کا اجرا شروع کردیں گے اور تین روز میں کاغذات نامزدگی والا مرحلہ بھی مکمل ہوجائے گا۔ اگلے چند دنوں میں سامنے آجائے گا کہ کون کون پہلے کس کس کے ساتھ تھے اور ان کا نیا سیاسی گھونسلہ کونسا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دے کر انہیں بھرپور انتخابی مہم چلانے کے لئے میدان میں اُتاردیں گی اور قومی سطح کے رہنما اور پارٹیوں کی قیادت بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کرکے ووٹرز کواپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں گی، لہٰذا جو ووٹرز کی اکثریت کو قائل کرلے گا وہی ایوان اقتدار تک پہنچے گا۔ ہمارا طرز سیاست بھارت اور ایسے ہی ایک دو دوسرے ملکوں سے قطعی مختلف نہیں ہے۔ منجھے ہوئے مقامی سیاست دان ہوا کا رُخ دیکھ کر اُس پارٹی میں چلے جاتے ہیں جس کے حق میں ہوا اور ماحول نظر بنا نظر آرہا ہوتاہے۔ اِس لئے کوئی بھی الیکٹبل شاید ایسا نہ ہو جس نے بیک وقت ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ نہ لیا ہو اور کامیاب نہ ہوا، ایسےواقعات بہت کم ہوتےہیں کہ کسی الیکٹبل کو دوسری پارٹی میں شامل ہونے پر شکست کا سامناکرنا پڑا ہو۔ لہٰذا سمجھ دار سیاست دان انتخاب ہی اسی پارٹی کا کرتے ہیں جس کی اکثریت یقینی ہوتی ہے۔ ماضی قریب نہیں ابتدا سے ہی یہ الیکٹبل ایسا کرتے آئے ہیں چونکہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں اور نوکریوں جیسے معاملات ٹھیک رکھتے ہوئے ووٹرز کو خوش رکھتے ہیں لیکن بہت کم ووٹرز ایسےہوتے ہیں جو پارٹی بدلنے پر الیکٹبل کا ساتھ چھوڑکر دوسری پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں ایسا صرف نظریاتی ووٹرز ہی کرتےہیں اور جب کامیابی ملنے اور اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد پارٹی کی لیڈر شپ مصائب کا شکار نظرآتی ہےتو یہ الیکٹبل فلور کراسنگ یا ایسا ہی کوئی دوسرا حربہ استعمال کرکے اپنی وفاداری تبدیل کرلیتے ہیں دوسری طرف ایسے الیکٹبل لینا سیاسی پارٹیوں کی بھی مجبوری ہوتی ہیں اور انٹرویو کرتے وقت اِس کے پروفائل میں دیکھاجاتا ہے کہ محترم کتنی بار ماضی میں کامیاب ٹھہرے ہیں لہٰذا ایسے الیکٹبل کو اپنے ساتھ ملانا چونکہ ہر پارٹی کی کوشش ہوتی ہے اِس لئے ایسےلوگوں کو کسی بھی پارٹی میں جانے اورٹکٹ حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے الیکٹبل تختہ دار کے اُس لیور کی مانند ہیں جس کو کھینچتے ہی پیروں تلے تخت ہٹ جاتا ہے اور جسم ہوا میں جھولنے لگتاہے، لہٰذا محرک کوئی بھی ہو جب بھی کسی پارٹی کا دھڑن تختہ کرنا مقصود ہو، ایسے ہی الیکٹبلز سے کام لیاجاتاہے۔ پھر انتخابات میں بننے والے سیاسی اتحاد بھی اسی مقصد کے لئے کام آتے ہیں، چھوٹی سیاسی پارٹیاں ہمہ وقت اقتدار میں رہنے کی خواہش کی تکمیل کے لئے ایسی پارٹی کا اتحادی بننے کی کوشش کرتی ہیں جس کی کسی بھی وجہ سے جیت یقینی نظر آرہی ہو۔ لہٰذا جب تک معاملات ٹھیک چلتے محسوس ہوتے ہیں سب ٹھیک چلتا ہے لیکن جب معاملات خراب ہونا مقصود ہوتو آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہے، کہ مصداق کوئی بھی وجہ گھڑ لی جاتی ہے اور پھر اگلا مرحلہ فلورکراسنگ کا۔ بلاشبہ الیکٹبل اور چھوٹی اتحادی جماعتیں اپنے اپنے طورپر ووٹ بینک رکھتی ہیں اسی لئے وہ اکثریتی جماعت کی اقتدار کی خواہش کے لئے ناگزیرہوتی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی الیکٹبل اور یہی اتحادی دھڑن تختہ کرانے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ چونکہ ہمارے یہاں سیاسی پارٹیاں بدقسمتی سے عوام میں اپنی جڑیں پوری طرح مضبوط اور گہری نہیں کرسکیں اِس لئے انہیں حصول اقتدار کےلئے ہمیشہ ان کا محتاج ہوناپڑا ہے اور تب تک ہوناپڑے گا جب تک سیاسی جماعتیں اپنے قول و فعل کے ساتھ عوام میں اپنی جڑیں گہری نہیں کرلیتیں۔

جواب دیں

Back to top button