آج کے کالمایم یوسف بھٹی

مستقبل کا صہیونی کیٹاکومب

ایم یوسف بھٹی

مردہ انسانوں کے جسم کا تصور دماغ میں خوف پیدا کرتا یے مگر کیٹاکومبز زیر زمین ایسے عجائب گھر نما قبرستان ہیں جن کو دیکھ کر سیاح محظوظ ہوتے ہیں۔ کیٹاکومب (Catacomb) انگریزی زبان کا لفظ ہے جو مردہ انسانوں کی ان سرنگوں کی تشریح کرتا ہے جن کی اندرونی دیواروں پر انسانوں کی خشک و سوختہ ہڈیاں اور کھوپڑیاں لگی ہوتی ہیں۔ دنیا میں پائے جانے والے ان کیٹا کومبز کی سیاحت کے لئے روزانہ ہزاروں زندہ انسان ان سرنگوں میں اترتے ہیں، انہیں دیکھتے ہیں، چھوتے ہیں، اور ان کے ساتھ تصاویر وغیرہ بناتے ہیں۔
یوں تو دنیا میں بہت سارے کیٹا کومب موجود ہیں لیکن پیرس کا کیٹا کومب کافی مشہور ہے۔ جہاں سیاح اس سرنگ میں نیچے اُتر کر اس کا جائزہ لے سکتے ہیں اور ان مردہ لوگوں کی ہڈیوں کے ساتھ اپنی تصاویر وغیرہ بناسکتے ہیں۔
اس کیٹا کومب میں کم و بیش 70 لاکھ مُردے موجود ہیں اس سرنگ میں بہت سے غار نما گڑھے ہیں جن کی مجموعی لمبائی 200 کلو میٹر کے قریب ہے۔ ان غاروں کی دیواروں میں چُنی ہوئی انسانی ہڈیاں اور سوختہ کھوپڑیاں ہیں۔ پیرس کا یہ کیٹا کومب ایک زندہ قبرستان ہے جس کی دیواریں انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں سے بنی ہوئی ہیں۔ سیاح ہڈیوں کوچھوکر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ جس طرف دیکھیں اور ان سایوں کے درمیان میلوں لمبے غار ہیں یہ دنیا کا دوسرا بڑا کیٹاکومب یعنی زیر زمین قبرستان ہے۔
پہلی بار کیٹا کومب کا تصور یہودیوں سے آیا اور یہودیوںؒ نے یہ آرٹ مصری فرعونوں سے سیکھا، مصر کے قدیم باشندے مردوں کو دفن نہیں کرتے تھے، وہ زمین میں غارتلاش کرتے تھے اور اپنے مردوں کو ان غاروں میں چھوڑ آتے تھے، اہرام مصر بھی کیٹاکومب تھے۔ یہ شاہی مردہ خانے تھے۔ بادشاہ عام لوگوں کے ساتھ دفن ہونا اپنی توہین سمجھتے تھے، چنانچہ یہ اپنے لئے الگ غار تلاش کرتے تھے اور اس غار پر اہرام تعمیر کرادیتے تھے جبکہ عام لوگ عام غاروں میں دفن ہوتے تھے، عیسائی عقیدے کے مطابق عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی صلیب سے اُتار کر ایک غار ہی میں چھوڑ دیا تھا اور ان کا جسم اطہر بعد ازاں اس غار سے غائب ہوگیا تھا۔ عیسائی زائرین آج بھی المقدوس (یروشلم) کے اِس غار کی زیارت کےلئے جاتے ہیں۔ یروشلم شہر کے نیچے میلوں لمبا کیٹا کومب ہے اور اس زیرزمین قبرستان میں لاکھوں لوگوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں پڑی ہیں۔
دنیا کا سب سے بڑا کیٹا کومب روم شہر کے نیچے ہے۔ یہ چھ ہزار سال پرانا ہے اور یہ 375 میل لمبا ہے اور یہاں اسی سے نوے لاکھ لوگوں کی باقیات رکھی ہیں۔
تیسرابڑا کیٹا کومب مصر کے شہر سکندریہ کے نیچے ہے، یہ تین منزلہ ہے اور ان تین منزلوں میں درجوں کے حساب سے مُردے دفن ہیں، امیر اور بارسوخ لوگ پہلی منزل پرپڑے ہیں، دوسرے درجے میں، دوسرے درجے کے مُردے ہیں اور تیسرے درجے میں تیسرے درجے کے مُردے حشر کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ کیٹا کومب 1900 میں اس وقت دریافت ہوا جب ایک گدھا گڑھے میں گرگیا، لوگ گدھے کو نکالنے کےلئے گڑھے میں اُترے اور پھر اس شہر میں نکل گئے جس میں لاکھوں لوگوں کی ہڈیاں ان کی منتظر تھیں۔
چوتھا سب سےبڑا کیٹا کومب گاڈ فادرسسلی کےشہر پولرمو میں ہے۔ یہ سولہویں صدی میں دریافت ہوا اوراس میں ہزارہا لوگوں کی ہڈیا پڑی ہیں۔ اسی طرح مالٹا میں چوتھی سے نویں صدی کا کیٹا کومب بھی موجود ہے۔
ویانا شہر کے سینٹ سٹیفن کیتھڈرل کے نیچے بھی میلوں لمبا کیٹا کومب ہے اور چیک ری پبلک کے شہر برونو میں دنیا کاساتواں بڑا کیٹاکومب ہے، اس میں پچاس ہزار مُردے اپنے حساب کا انتظار کررہے ہیں۔
یوکرین کے شہر اوڈیسا کے نیچے اڑھائی ہزار کلو میٹر لمبے غار ہیں اور ان غاروں میں بھی کیٹا کومب موجود ہیں، یہ فاصلہ کتناطویل ہے، آپ اس کااندازہ اوڈیسا سے پیرس کے فاصلے سےلگا لیجئے، پیرس اوڈیسا سے 2138 کلو میٹر دور ہے جبکہ اوڈیسا شہر کے نیچے 25سو کلو میٹرلمبا کیٹاکومب ہے۔ یوکرین کی حکومت نے 1995 میں چند لوگ ان غاروں میں اُتارے، یہ لوگ مسلسل 27 گھنٹے چلتے رہے اور انہوں نے صرف 40 کلو میٹرسفر طے کیا۔
2005 میں چند نوجوانوں نےاسی کیٹا کومب میں نیو ایئر پارٹی کا بندوبست کیا، پارٹی کے دوران ماشا نام کی ایک لڑکی راستہ بھٹک گئی اور ناجانے کہاں غائب ہوگئی، پولیس کو اس کی تلاش کرنے کے لئے دو سال لگ گئے۔ یوکرین کے کیٹا کومب کادرجہ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے چنانچہ وہاں آج بھی سینکڑوں سال پرانی لاشیں اصل حالت میں موجود ہیں اور سائنس دان تحقیق کے لئے عموماً یہاں سے نمونے حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن پیرس کاکیٹا کومب ان تمام کیٹا کومبز کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ سیاحوں کےلئے کھلا ہے۔ حکومت نے لوگوں کو بھٹکنے سے بچانے کے لئے غاروں پر سلاخیں بھی لگارکھی ہیں، آپ ممنوعہ علاقے میں داخل نہیں ہوسکتے، سیاحوں کی باقاعدہ گنتی بھی کی جاتی ہے۔ ایک وقت میں بیس سے زیادہ لوگوں کوغاروں میں نہیں جانے دیاجاتا اور دوسری وجہ آرٹ ورک ہے، کیٹا کومب میں ہڈیاں اورکھوپڑیاں ایک مصورانہ ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں آپ انہیں دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ آپ انہیں آرٹ ورک سمجھ کر داد دینے پر مجبور ہوجاتےہیں۔
انسان کی فطرت سے درندگی نہیں گئی، وہ اپنے جیسے خشک اور مردہ انسانوں کو دیکھ کر لرز جانے کی بجائےاس میں آرٹ ڈھونڈتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ اس تماشے کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے مگر لرزہ براندام نہیں ہے۔
یہودیوں کو آدھی سے زیادہ دنیا ’’صہیونی‘‘ کہتی ہے۔ چونکہ کیٹاکومب کی ابتداء انہی صہیونیوں نے کی تھی اور اگلا بڑا کیٹاکومب بنانے کی جدوجہد بھی یہی صہیونی کر رہے ہیں۔ اگر جلد جنگ بندی نہ ہوئی تو یہ کیٹاکومب اس لحاظ سے دنیا کا منفرد ترین ’’کیٹاکومب‘‘ ہو گا کیونکہ اس میں دنیا کی صرف ایک قوم کی بریدہ اور سوختہ ہڈیاں ہوں گی، جو فلسطینی قوم کی ہوںگی۔ مستقبل قریب میں مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے سیاح اس کیٹاکومب کو دیکھیں گے اور بے شرمی سے خوش بھی ہوں گے، اور وہ یہودیوں کی طاقت اور آرٹ کی داد دیئے بغیر بھی نہیں رہ سکیں گے۔ الامان الحفیظ!

جواب دیں

Back to top button