آج کے کالمخیرزمان راشد

پہاڑ، یہاں کے باسی، ماحول، مسائل اور خدشات

خیر زمان راشد

 

پہاڑ ماحول کے سب سے بڑے محافظ ہیں۔ وہاں برف کدے ہیں۔ قیمتی پتھروں کے محفوظ خزانے ہیں،چشمے ہیں ، میٹھے پانی کی جھیلیں ہیں ، تازہ ہواؤں کی گذرگاہیں ہیں، پہاڑ گرمیوں کے موسم میں رہائش گاہیں اور سردیوں کے موسم میں یہ ہمارے وسائل کی حفاظت اور تیاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ پہاڑوں کی رشتہ داری برف جنگلات اور یہاں کے ماحول سے مطابقت رکھنے والے جانوروں پودوں اور یہاں کے مقامی انسانوں سے ہے۔ پہاڑوں سے متصل وادیوں کے قدیم رہائشی لوگ اور گرمیوں میں گرم علاقوں سے یہاں تک پہنچنے والے خانہ بدوش بھی پہاڑوں کی دولت شمار ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر پہاڑوں کا عالمی دن 11 دسمبر کو پہاڑوں کی اسی اہمیت کی وجہ سے منایا جاتا ہے لیکن بدنصیبی سے ہم پہاڑوں اور ان سے متصل وادیوں کی حفاظت اور ماحولیاتی توازن کا شعور کھو چکے ہیں اور اگر شعور ہے بھی تو ہم پہاڑوں کے باسیوں کو شہری زندگی کی چاٹ لگا کر ہجرت پر مجبور کرتے ہیں۔یہاں کے پرندوں اور جانوروں کے لئے محفوظ ماحول کو خطرات سے دوچار کرتے ہیں۔ یوں پہاڑ اپنے خزانے اور ہمارے ساتھ دوستی سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ اس کی وجہ مقامی بھی ہے اور قومی بھی۔
اگر مثال کے طور پر ہم آزاد کشمیر کے پہاڑی علاقے کی صورتحال دیکھیں تو اس صورت حال کی شدت کا بہتر اندازہ ہوسکتا ہے۔ جہاں پہاڑوں اور پہاڑوں سے متصل وادیوں کو ترقی اور سیاست کے نام پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ بلند پہاڑوں تک سڑکوں اور سیاحوں کی رسائی کامطلب جڑی بوٹیوں،جم سٹون مافیا اور پرندوں اور پانی کے ذخیروں کی آلودگی بھی ہے۔ ان وادیوں اور دیہاتوں سے آبادی کی منتقلی کی ترغیب کی ایک وجہ شہری سہولیات کے ساتھ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا قومی پروگرام ہے۔ جو میدانوں کی زرعی زمین اور پہاڑوں اور دیہاتوں سے اس کے باسی اتار لاتا ہے۔
یہ انتقال آبادی پاکستان میں آبادی کے بم کی طرح ہی مستقبل کا ایک بڑا خطرہ ہے۔ فی مربع کلومیٹر جنگلات کی کمی، ادویاتی اور نایاب پودوں کا خاتمہ بہت سے جانوروں اور درختوں کے ختم ہوجانے کے ساتھ جم سٹون مافیا اور سیاحتی تاجروں کا حملہ یہ سب عوامل مل کر پہاڑوں وادیوں اور مضافات کے آبادی اور قدرتی توازن کو ریڈ زون میں پہنچا چکے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ آزاد کشمیر حکومت نے ہر سیاحتی مقام اور دیہات میں روڈ پہنچا کر اپنے ووٹر پکے کیے اور اس بات کو بالکل نظر انداز کیا کہ سیاحوں کی آمد سے زیادہ اہم جہاں کا قدرتی ماحول ہے۔ شہروں کے قریب پہاڑوں کو لوگوں نے ریت بجری کے لئے توڑنا شروع کردیا۔کہیں قدرتی خوبصورتی کو روڈ اور تعمیرات نے ہڑپ کر لیا ۔ جو کسر رہ گئی وہ جنگلات کے کٹاؤ کے محکموں نے نکال لی۔ بارود اور کٹاؤ کی وجہ سے جانور اور پرندے بے گھر ہونے لگے۔ اس خوفناک صورت حال میں سیاستدان اور ادارے شریک جرم ہیں اور عوام کا شعور ان دنوں مہنگائی اور جہالت نے ختم کردیا ہے۔ اس لئے اس حوالے سے سے آنے والے دن پہاڑوں قدرتی وسائل اور ماحول کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں لا رہے ہیں۔ کٹاؤ بارشیں برفباری لینڈ سلائیڈنگ اور برفانی تودوں کے ساتھ پانی کی کمی بھی اس قوم کی تقدیر ہوگی۔
آزاد کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں عموماً برف پڑتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب برف کا دورانیہ اور مقدار کم ہوئی ہے لیکن آج بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں۔ جہاں کم و بیش چھے ماہ تک برف کا موسم رہتا ہے اوسطاً پہاڑی علاقے چار پانچ مہینے سردی کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔ ایسے سخت موسم میں یہاں زیادہ تر انحصار مقامی وسائل اور سٹاک خوراک ایندھن اور جانوروں کے چارے پر ہوتا ہے۔ شہری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی قوت ارادی اور گھریلو طریقہ علاج پر اکتفا کرتے ہیں۔ موسم کی شدتیں اور برف باری کی وجہ سے گلیشیئر اور برفانی آندھیوں کا خطرہ رہتا ہے اور اکثر بہت سی جانیں چلی جاتی ہیں۔ ایسے علاقوں کے قدرتی ماحول کو بچانے میں ناکامی کی وجہ سے یہاں کی آبادی کی ہجرت اور نقصانات کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔ ان موسمی حالات میں یہاں کی آبادی کو جہاں مقامی سطح پر بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے۔ وہیں یہاں کے قدرتی ماحول جس میں قدرتی جنگلات کو بچانے کی ضرورت ہے تاکہ آندھی برف باری اور موسمی بارشوں سے لینڈ سلائیڈنگ ، برفانی تودوں کا خطرہ کم ہو اور لوگوں کے لئے یہاں جینا آسان ہوسکے ۔
برفانی علاقوں سے یہ ہجرت عام آدمی کے لئے اپنی سہولت اور بقا ہے لیکن مضافات سے ہجرت ماحول کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ یوں شہروں پہ آبادی کا دباؤ اور سماجی تصادم بڑھ جاتا ہے۔ دیسی فصلیں پھل اور جانوروں کی کمی کے ساتھ ایسے پہاڑوں علاقوں میں کچھ دوسری سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ کہیں سیاحت کے نام پر سرمایہ کاری ہوتی اور کہیں جم سٹون جڑی بوٹیوں اور درختوں کی کٹائی شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے مقامات پر معاشی مناپلی قدرتی وسائل کو تباہی کے دھانے پر لے جاتی ہے۔ اس کی بدترین مثال وادی کنہار اور گلگت بلتستان کے علاقوں چلاس وغیرہ سے جنگلات کا مکمل صفایا ہے۔
اس حوالے سے حکومت اور اداروں کے پاس نہ قدرتی وسائل کو بچانے کی پالیسی ہے۔ نہ اس نقصان کو کم کرنے کا کوئی قابل بھروسہ پروگرام روبہ عمل ہے۔ یوں پہاڑ چٹیل ہو کر سرکنے لگتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ ریت کے ٹیلوں میں بدل جاتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں پہاڑی وادیوں میں جہاں بڑے پیمانے پر جنگلات تھے۔ آج وہاں صرف اجاڑ اور سرکتی ہوئی لینڈ سلائیڈنگ ہیں۔ تیز بارشوں میں سیلابی صورتحال اور برف باری میں برفانی تودوں کا خطرہ سر پر رہتا ہے۔اب ایسے علاقوں کی آبادی کی منتقلی روکنا اور انھیں وہاں پر ہی سہولیات اور ترغیب کے ساتھ رہنا ممکن بنانا انتہائی ضروری ہے۔ لیکن بد قسمتی ہے کہ ہمارے اداروں اور حکومتوں کے لئے یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑی علاقوں کے سیاحتی علاقوں میں سڑکیں بناکر ماحول اور وسائل کو تو خراب کیا جا رہا ہے۔ لیکن آبادی کی منتقلی اور ماحول کے خطرات سے لوگوں کو بچانے کا کوئی شعور نہیں۔ آبادی کا توازن یہ ہے کہ جو آبادی جہاں بس رہی ہے۔ وہیں رہے اور قومی وسائل کی حفاظت اور ترویج میں اپنا کردار ادا کرے۔ دیہات اور مضافات لائیو سٹاک اور خام مال کا ایک بڑا ذریعہ ہیں لیکن پہاڑی اور برفانی علاقوں کے مضافات تو کئی دیگر وجوہات کی وجہ سے بہت بڑی اور ناگزیر ضرورت ہیں۔ جس کا ذکر ابتداء میں کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل فکر اس حوالے سے عالمی سطح پر پہاڑوں کے ماحول کو بچانے اور شعور میں اضافے کے ساتھ حکومتوں اور اداروں کو جھنجھوڑنے کام بھی کر رہے ہیں۔
یاد رہے دنیا کے چودہ پہاڑی سلسلوں میں پانچ پاکستان میں ہیں۔ اور ان سلسلوں سے ماحول کی بقا ہی نہیں یہاں کی آبادی کی بقا بھی منسلک ہے۔ یہ پہاڑ بہت سے وسائل کے محافظ اور موسمی حالات کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ لیکن انسانی عمل دخل نے پہاڑوں اور ان سے منسلک وادیوں کے اصل کردار کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ ماحول دشمن عالمی سرگرمیاں بھی اس توازن کو تباہ کر رہیں ۔ مستقبل کا منظر نامہ ایک خوف کی تصویر بھی پیش کرتا ہے اور ایک بے رحم سوال اٹھاتا ہے کہ پہاڑ اور وادیاں جو ہماری دوست ہیں ۔ کہیں یہ ہماری مکمل دشمن تو نہ بن جائیں گی؟ ماحول کی یہ تباہی اور فطرت کا یہ غصہ بے ہنگم آبادی اور اس سے زیادہ بے ہنگم طریقے سے تعمیرات اور آبادی کی کثرت کی وجہ سے ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button