کیا دوبارہ مخلوط حکومت بنے گی۔۔۔؟
آصف رفیق
پاکستان میں ہر مرتبہ عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کرنے کا اعلان کیاجاتاہے اور کہاجاتاہے کہ اس مرتبہ ملک بھر میں عام انتخابات آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ، شفاف اور پرامن بنانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت وقت نے فول پروف اقدامات کئے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر الیکشن کے بعد انتخابی نتائج پر دھاندلی کا شور مچایا جاتاہے اور پھر ہارنے والی سیاسی جماعتیں اس کےخلاف احتجاج کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اگلے انتخابات کا وقت آجاتاہے۔ یہ کھیل گزشتہ 40سالوں سے جاری ہے اور شاید مزید 100سال تک جاری رہے گا۔آخر کارارباب اختیار اس طرف توجہ کیوں نہیں دیتے اور انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کی جاتیں جو ہمیشہ ضروری ہوتی ہیں، اب بات صرف انتخابی اصلاحات تک محدود نہیں رہی بلکہ پورے ملکی نظام میں بڑے پیمانے اصلاحات کی ضرورت ہے، موجودہ کرپٹ نظام کے ہوتے ہوئے نہ تو ملک میں انتخابی اصلاحات لائی جاسکتی ہیں اور نہ ہی اسے ترقی کی جانب گامزن کیاجاسکتاہے۔لہٰذا پہلے ملک میں تین سال کے لئے قومی حکومت تشکیل دی جائے اورتین سالوں کے دوران تمام اصلاحات کردی جائیں تاکہ ملک میں سیاسی، معاشی اور اخلاقی و سماجی استحکام میں بہتری آسکے، سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایاہے، یہی وجہ ہے کہ ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کاشکار ہے جس سے باہر نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔سب کو ملکر سوچناہوگا کہ ملک میں تسلسل کے جمہوریت کو کیسے قائم رکھاجاسکتاہے لہٰذا مطالبات اور احتجاج کو ایک مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے انجام دیاجائے،ملک کو جن چیلنجز کاسامنا ہے اسے کوئی بھی اکیلا شخص یا پارٹی ان مسائل سے نہیں نکال سکتی،یہ ملک مشترکہ جدوجہد سے ہی ترقی کرسکتاہے، آج ملک کو انفرادیت سے زیادہ اجتماعیت کی ضرورت ہے،ہم جتنی جلدی ایک قوم بنیں گے اتنی جلدی ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہوںگے ورنہ اسی طرح دیواروں سے سر مار مار کراپنے آپ کو زخمی کرتے رہیں گے اور دنیا ہم پر ہنستی رہے گی۔ ویسے معذرت کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ اب تک ہم نے خود ایک نالائق قوم ثابت کیاہے۔
2018 کے انتخابی نتائج اور آئندہ ہونےوالے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت کس جماعت کی ہوگی؟ کون سی جماعت اکثریت حاصل کرے گی اور کونسی جماعتیں ملکر حکومت قائم کرسکتی ہیں؟ اس سلسلے ہم ایک نظر ماضی پرڈالتے ہیں۔ سب سے پہلے ماضی کی بات کرتے ہیں۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کی تمام 342 نشستوں میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل کرنے کےلئے 172 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ملک میں 15ویں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے انتخاب کےلئے 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات ہوئے۔ تین بڑی جماعتیں عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن)اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن وہ اکثریت سے محروم رہی۔ پی ٹی آ ئی نے بعد میں کئی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت بنائی۔ صوبائی سطح پر پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں سب سے بڑی جماعت رہی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سندھ میں اپنا غلبہ برقرار رکھا اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ پنجاب میں نتیجہ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں نکلا جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ تاہم کئی آزاد ایم پی اے کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
بہرحال موجودہ حالات میں یوں محسوس ہورہاہے ایک مرتبہ پھر ملک میں عام انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوگی، پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی مخلوط حکومت قائم ہوگی،اگرچہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں لیکن اس مرتبہ حالات کاحقیقی طور پر جائزہ لیاجائے تو حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو آئندہ عام انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں ہوگی اس لئے میرا مشورہ ہے کوئی بھی سیاسی جماعت ایک دوسرے کےخلاف اس حد تک نہ جائے جہاں سے ان کے راستے جدا ہوجائیںاور پھر آئندہ ضرور ت پڑھنے پر ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیں سکیںگے ۔ ملک کو مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے مفادات کی سیاست کی نہیں ۔ مفاہمت ذاتی مفاد کے لئے نہیں ہونی چاہیے بلکہ ملک وعوام کی ترقی وبہتری کے لئے ہونی چاہیے۔ ایسی کوئی بھی مفاہمت جو ذاتی مفادکے لئے وجود میں آئے گی ملک وعوام کیلئے زہر قاتل سے کم نہیں ہوگی ۔موجودہ حالات میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے، بہرحال نوازشریف کی وطن واپسی مختلف سیاسی جماعتوں سے اتحاد قائم کرنے کوششوں سے ان کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے اوراگر پی ٹی آئی انتخابات کا بائیکاٹ کردیتی ہے تو آئندہ انتخابات میں نوازشریف کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت اکثریت لینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہی۔