اخلاقیات،کامیاب زندگی کی علامت

شکیل امجد صادق
بعض لوگوں کا کامیاب زندگی کا تصور ڈھیر ساری دولت اور طاقت سے عبارت ہے۔ اگر ہمیں یہ سب مل بھی جائے تو بھی ہم کبھی مطمئن نہیں ہوتے اور اسے کھو دینے کے خوف تلے رہتے ہیں۔ ہمارے پاس جتنا زیادہ ہو، خاص طور پر جب اسے دوسروں کے استحصال سے حاصل کیا ہو، اتنے ہی زیادہ ہمارے دشمن بنتے ہیں۔ ایسا تو کوئی بھی نہیں کہے گا کہ کامیاب زندگی وہ ہے جس میں لوگ ہمیں نا پسند کریں۔ کامیاب زندگی وہ ہے جس میں ہم نے بہت سے دوست بنائے اور لوگ ہماری صحبت میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ پھر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے پاس کتنی دولت یا طاقت ہے، ہمارے پاس جذبات کی وہ دولت ہو گی جو کہ کسی بھی طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے۔ اخلاقی اصول ایسے رویہ کی جانب راہنمائی کرتے ہیں جس سے خوشی ملتی ہے، اور وہ بھی جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب ہم ایماندار ہوں اور دوسروں کی خوشی کی تمنّا کریں، تو لوگ ہمارے اوپر بھروسہ کرتے ہیں کہ ہم دھوکہ، دھونس یا استحصال سے کام نہیں لیں گے۔ ایسا اعتماد، وہ جن سے ہم دوستی استوار کریں، ان کے ساتھ ایک بنیاد باندھنے کا کام دیتا ہے۔ وہ ہماری صحبت میں طمانیت اور مسرت محسوس کرتے ہیں کیونکہ انہیں ہم سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہم بھی جواباً خوش ہوتے ہیں۔ ایسا کون پسند کرتا ہے کہ جب ہم کسی کے قریب ہوں تو وہ محتاط ہو جائیں یا کانپنے لگ پڑیں؟ ہر کسی کو مسکراتا ہوا چہرہ اچھا لگتا ہے۔ انسان ایک سماجی مخلوق ہے، ہمیں محض اپنی بقا کے لئے دوسروں کی سہائیتا کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ صرف اس وقت جب ہم بے یار و مدد گار نوزائیدہ ہوں یا نرسنگ ہوم میں لاغر، بوڑھے انسان، بلکہ تمام عمر ہمیں دوسروں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ محبت بھری دوستیوں سے جو جذباتی سہائیتا ہمیں ملتی ہے اس سے ایک بھرپور زندگی تشکیل پاتی ہے۔ مضبوط اخلاقی اقدار کے ذریعہ ہم ہر ملاقاتی سے دوستانہ تعلقات پیدا کر سکتے ہیں۔اک روز میں نے اپنے جگری دوست کو فون کیا اور کہا:
’’ آج شام کو میں اپنی بیگم کے ہمراہ تمہارے گھر آؤں گا۔‘‘ دوست نے یہ سنتے ہی کہا ۔ مرحبا! خوش آمدید! … بڑے اچھے وقت پر یاد کیا، میری تم سے ایک چھوٹی سی درخواست ہے۔میں نے استفسار کیا کہ وہ کیا؟ کہنے لگا’’جیسا کہ تم بڑے شہر میں رہتے ہو تو میں چاہتا ہوں کہ تم وہاں سے آتے ہوئے وہاں کی سب سے مشہور اور مہنگی بیکری سے دو پاؤنڈ کا فریش کیک بھی لیتے آؤ، اور اس کے ساتھ فلاں چاکلیٹ، فلاں بسکٹ اور فلاں جوس بھی لیتے آنا۔‘‘ میں نے کہا:’’کیوں؟ کیا یہ ہماری دعوت کا اہتمام ہے کیا؟‘‘ دوست نے کہا:’’نہیں، یہ تمام اشیاء میرے بیٹے کی پسندیدہ ترین چیزیں ہیں، اور آج میں اپنے بیٹے کے ساتھ اس کی کامیابی کا جشن منانا چاہتا ہوں، لیکن اس وقت میں باہر نہیں جا سکتا، اور میں اسے اس بات کا احساس دلائے بغیر حیران کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے دوست کی مطلوبہ چیزیں خریدیں ، پرتعیش بیکری کا بل بھی ٹھیک ٹھاک بن گیا، میں نے رقم ادا کی، سامان لیا اور دوست کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب وہاں پہنچے تو تھوڑی دیر بعد ہی اس دوست نے اپنے بیٹے کو سرپرائز دیتے ہوئے، جشن کا اہتمام کر دیا اور یوں وہ شام خوشیوں سے بھر گئی رات گئے جب میں نے دوست سے اجازت چاہی ، تو اس نے کہا:’’میرے پاس کیک کا ایک بڑا ٹکڑا بچا ہے۔ براہ کرم مجھے شرمندہ نہ کیجیے گا اور اسے اپنے بچوں کے واسطے لے جائیں۔‘‘ اس نے فقط وہی ڈبہ مجھے تھما دیا جو میں لایا تھا‘‘، اس کے علاوہ نہ ہی مجھے وہ رقم دی جو میں نے خرچ کی تھی اور نہ ہی پیسوں کا ذکر کیا، اس نے کیک کے ٹکڑے کے ساتھ مجھے الوداع کہا، میں وہاں سے رخصت ہوا اور واپسی پر سارے راستے اسے کوستا رہا، اور اس وقت کو کوستا رہا جب میں نے اسے بتایا کہ اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لئے آرہا ہوں۔
گاڑی میں میری بیگم نے یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی کہ شاید آپ کا دوست ادائیگی کرنا بھول گیا ہے۔ وہ کل ضرور یاد کرے گا، اور آپ کو فون کرکے معذرت کرے گا اور پیسے بھی بھجوا دے گا۔
لیکن میں کہتا رہا کہ اس نے مروتاً بھی نہیں پوچھا لہٰذا :’’یہ رویہ یاری دوستی کا استحصال اور آداب و احترام کے منافی ہے۔‘‘
میں بدستور غصے میں بڑبڑاتا رہا، گھر پہنچ کر بیگم کو کہا کہ شیخ صاحب نے جو کیک کا ٹکڑا تھما کر احسان کیا ہے وہ کیک کا ٹکڑا بچوں کو کھلا دو کم از کم کچھ تو تسکین ہو۔
اس نے ڈبہ کھولا تو اس میں کیک کا ایک ٹکڑا اور پوری رقم کے ساتھ شکریہ کا رقعہ ملا، جس پر یہ الفاظ تحریر تھے۔’’میرے دوست باوجود اس کے یہ بڑی رقم ہے مگر میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے کسی بھی صورت میں پیسے نہیں لو گے، اس لئے میں نے تمہارے علم میں لائے بغیر پیسے ڈبے میں رکھ دیے ہیں ۔‘‘ میں حیران کم اور شرمندہ زیادہ تھا، اور اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کروں۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا: کہ اس دوران میں نے اپنے دوست کے متعلق جو رائے بنا لی تھی کیا میں اپنے دوست سے اپنے برے خیالات کے لئے معذرت کروں اور معافی مانگوں ؟
اس نے کہا: آپ کے متعلق اس کا جو حسن ظن ہے اسے اس پر قائم رہنے دیں۔ اور آپ بھی دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھیں۔ ہمارے اکثر مسائل ہمارے قول و فعل میں پیدا ہونے والی غلط فہمی اور ہمارے رویوں کی غلط تشریح کی وجہ سے ہوتے ہیں۔کاش ہم ایک دوسرے کے لئے ایسے ہی اچھے بہانے بنا سکتے جیسے میرے دوست نے کیک کے ٹکڑے کے بہانے ڈبے میں پیسے رکھ دیے تھے۔