سقوط ڈھاکہ کے اسباق
پاکستان چودہ اگست 1947کو آزاد ہوا لیکن سولہ دسمبر 1971کو دولخت ہوگیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے نظریاتی رفقا نے آزاد وطن کے حصول کے لئے خلوص نیت اور نہایت دیانت داری کے ساتھ جدوجہد کی، مسلمانوں کو ایک طاقت کے طور پر منظم کیااور پھر آزاد وطن کے لئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ جمہوری طریقے سے جدوجہد کی ، اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت عطا فرمائی، اگرچہ قیام پاکستان کے وقت ہجرت کے دوران مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی اور لرزہ خیز واقعات رونما ہوئے مگر یہ حقیقت ہے کہ بانی پاکستان اور ان کے نظریاتی ساتھیوں نے اپنا تن ، من، دھن سب علامہ محمد اقبال کے خواب کی تعبیر کے لئے وقف کردیاتھا۔ مگر افسوس کہ سولہ دسمبر 1971کو پاکستان دو لخت کردیاگیا ، قیام پاکستان کی تحریک میں کوئی پنجابی، کوئی پٹھان یا کوئی بنگالی نہیں تھا مگرجب پاکستان دولخت ہوا تب ہماری دو پہچان بن چکی تھیں کیونکہ آزادی کے بعد ہم متحد نہ رہے، نسل، برادری، نظریات، پیشہ، مسلک غرضیکہ ہر شے میں ہم نے تقسیم کردی کیونکہ ہماری ترجیحات بدل چکی تھیں۔ بانیان پاکستان زندہ ہوتے تو آج وطن عزیز دو ٹکڑے نہ ہوتا، مشرقی اور مغربی پاکستان اب پاکستان اور بنگلہ دیش بن چکے ہیں۔ آج ہم بری الذمہ ہونے کے لئے منہ چھپاکر کہتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ دراصل بین الاقوامی سازش تھی تو کیا کرہ اراض پر اقوام اور ثقافتوں کا ہمیشہ سے تصادم نہیںرہا؟ کیا دنیا میں پہلی اور آخری سازش ہمارے خلاف ہی ہوئی تھی ، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تسلیم کیاجانا چاہیے کہ قوم تب تک ہی قوم رہتی ہے جب تک وہ متحد اور ایک نظریہ پر قائم رہتی ہے مگر جب نظریات اور مفادات کی خاطر ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے تو پھر وہ قوم نہیں رہتی۔ اِس لئے سوال اٹھتا ہے کہ کیا سقوط ڈھاکہ سے قبل کبھی کسی قوم نے دوسری قوم کے خلاف سازش کرکے اُسے تقسیم نہیں کیا تھا؟ درحقیقت اِس تقسیم کو سازش کہنا اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے مترادف ہے۔ سابق سربراہ پاک فوج جنرل قمرجاوید باجوہ نے مدت ملازمت پوری ہونے سے قبل ایک تقریب سے خطاب میں واضح طور پر کہا تھا کہ سقوط ڈھاکہ دراصل سیاسی قوتوں کی ناکامی تھی۔ اُن کے خطاب کے بعد سیاسی حلقوں میں جیسے کھلبلی سی مچ گئی کیونکہ ہم ہمیشہ سے وہہی سنتے آئے ہیں جو سیاست دان ہمیں سناتے رہے ہیں لہٰذا پہلی بار پاک فوج کے سربراہ نے اِس راز سے پردہ اُٹھایا ،اگرچہ بعض اطراف سے جوابی بیانات بھی دیئے گئے مگر ہم صد فی صد متفق ہیں کہ سقوط ڈھاکہ دراصل سیاسی قوتوں کی ناکامی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی وجوہات معلوم کرنے کے لئے دسمبر 1971 میں حمود الرحمن کمیشن مقرر کیا گیا جس کی رپورٹ 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی گئی، لیکن اس رپورٹ کو مکمل طورپر آج تک منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا۔ بلاشبہ یہ کمیشن قائم کرتے وقت سقوط ڈھاکہ کی وجوہات،اِس کے ذمہ داران اور مستقبل میں ایسی غلطیوں سے بچنا مقصد ظاہرکیا ہوگا چونکہ کمیشن کی یہ رپورٹ منظر عام پر آنےہی نہیں دی گئی لہٰذا تمام اسباب اورکردار خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی مگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اِس میں سیاست دانوں کی حصول اقتدارکی خواہش نے ملک کو دولخت کردیا۔ بلاشبہ اِس سازش کے پیچھے بھارت کی گھنائونی سازش تھی لیکن ناکام تو سیاسی قیادت ہی ہوئی جس نے سازش کو بروقت ناکام بنانے کی بجائے کامیاب ہونے دیا اور جو ایک قوم پاکستانی تھی اس کو پاکستانی اور بنگالی بنادیا۔ ایک ملک سے دو، ایک پرچم سے دو، ایک قوم سے دو قومیں کرہ ارض پر سامنے آگئیں۔ اِس سانحہ پر جتنی بار اور جس پہلو سے بھی بات کی جائے سوال یہی سامنے آتا ہے کہ سانحہ کے اسباب کیا تھے اور کون کس کے لئے عدم برداشت تھا اور اِس کی وجوہات گر حصول اقتدار نہیں تھیں تو پھر کیا تھیں؟اقوام کو بزور طاقت یکجا نہیں جاسکتا ہے۔ آج بھی ہزاروں بلکہ لاکھوں کتابوں کے اوراق پر لکھا ہے کہ بعض سیاست دان مشرقی پاکستان کی اکثریت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ایک ووٹ کی بنیاد پر عام انتخابات میں بنگالی اکثریت حاصل کرچکے تھے، لہٰذا اُن موقع پرست سیاست دانوں کے لئے یہی موزوں تھا کہ وہ حصول اقتدار کے لئے قائدؒ اور شہدا کے پاکستان کو دولخت کرتے اور انہوں نے کردکھایا جس سے ثابت ہوا کہ وطن عزیز کو دولخت کرنے کی سازش تو تھی ہی مگر انتخابات میں شکست کے باوجود حصول اقتدار ہماری خواہش تھی۔ مگر حصول اقتدار کے لئے اتنی بڑی قیمت ادا کرنا پوری دنیا نے دیکھا ہوگا لہٰذا یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت دوبارہ بحال نہیں کرسکے کیونکہ سقوط ڈھاکہ نے اُس وقت کے قائدین کی صلاحیتیں اور عزائم پوری دنیا کے سامنے عیاں کردیئے تھے، جو عزت و قدر ہم نے سقوط ڈھاکہ کے معاملے پر کھوئی تھی وہ آج تک بحال کرنے میں اسی لئے ناکام ہیں کیونکہ ہم سقوط ڈھاکہ سے سبق سیکھنے کے لئے قطعی تیار نہیں۔ دنیا بھر میں ایک مثال کثرت سے دی جاتی ہے کہ سانحات کبھی اچانک رونما نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے غلطیوں کا تسلسل ہوتا ہے، سقوط ڈھاکہ بھی اُس وقت کی قیادت کی غلطیوں کا تسلسل تھا اور آج ہم جن بحرانوں سے دوچار ہیں ان کے پیچھے بھی ہماری قیادت کرنے والوں کی غلطیاں ہیں جو تسلسل کے ساتھ کی جارہی ہیں۔ چہار اطراف سے خطرات میں گھرا پاکستان بیک وقت کئی چیلنجز کا سامنا کررہاہے، عام پاکستانی تشویش میں مبتلا ہے، جنہوں نے سقوط ڈھاکہ دیکھا یا سنا تھا وہ بھی پریشان ہیں فقط وہی پریشان نہیں ہیں جن کو درحقیقت اِس وقت پریشان ہونا چاہیے تھا۔ جب ہم ایک دوسرے کے وجود یا مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر ایک وجود کا باقی رہنا ہی اٹل ہوتاہے ، پس تب بھی یہی ہوا تھا لہٰذا یہ فطری ہے کہ جب ہم ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کریں گے تو تقسیم کا خطرہ بہرحال رہے گا۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی شاید ایسے ہی قوم کو تقسیم کرکے علیحدگی کا نعرہ بلند کیاگیا تھا ۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کا حصول قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے نظریاتی رفقا کی کوششوں سے ممکن ہوااس کے برعکس سقوط ڈھاکہ بھی اُس وقت کی سیاسی قیادت کی اہلیت کا امتحان تھا جس میں وہ ناکام ٹھہرے اور جو پاکستان شہدا کی قربانیوں سے حاصل کیاگیا اس کو اپنے مقصد یعنی اقتدار کے لئے دو لخت کردیا گیا۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا یہی وقت ہے وگرنہ بہت دیر ہوجائے گی۔