خبریںسپیشل رپورٹ

کیا صحت کارڈ صوبہ پنجاب میں معطل ہو گیا ہے ؟ حقیقت کیا ہے ؟

پنجاب میں ہیلتھ انشورنس پروگرام معطل نہیں ہوا تاہم نگراں حکومت نے اس حوالے سے نئی پالیسی متعارف کروائی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کاصوبہ پنجاب میں 2021ء میں غریبوں کے مفت علاج کے لئے شروع کیا جانے والا ایک نمایاں منصوبہ، ہیلتھ انشورنس پروگرام، پنجاب کی نگراں حکومت نےمعطل کر دیا ہے۔

یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔

26 اکتوبر کو ایک سوشل میڈیا صارف نے پلیٹ فارم X، جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر دعویٰ کیا کہ ”ن لیگ کی حکومت نے پنجاب کے 12 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو صحت انشورنس کارڈ کی سہولت سے محروم کیا۔ عوام اس احسان کا بدلہ کیسے چکائیں گے؟“

اس نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس پوسٹ کوتقریباً19 ہزار بار دیکھا، 803 مرتبہ ری پوسٹ اور18 سو مرتبہ لائک کیا گیا۔

https://x.com/adnanaadil/status/1717509083266441369?s=20

اس جیسے دعوے یہاں، یہاں اور یہاں بھی پوسٹ کیے گئے ۔

حقیقت:

حکام اور صوبے کے8 اسپتالوں نےتصدیق کی ہے کہ یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام، جسے صحت سہولت کارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، پنجاب میں معطل نہیں کیا گیا۔

تاہم، نگراں حکومت نے نومبر میں ہیلتھ کارڈ کے حوالے سے نئی پالیسی متعارف کرائی ہے، اب اس کارڈ کے ذریعے علاج معالجہ صرف سرکاری اسپتالوں میں مفت ہوگا جب کہ نجی اسپتالوں میں مریضوں کو 40 فیصد اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنا ہوں گے۔

اس سے قبل اس کارڈ کے ذریعے نجی اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کی سہولت بالکل مفت فراہم کی جاتی تھی۔

نگراں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نےٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ ہیلتھ انشورنس سکیم پنجاب بھر کے رجسٹر شدہ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ابھی بھی فعال ہے۔

تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ جو مریض پھر بھی پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانا چاہتے ہیں، ان کو طبی اخراجات کا 40 فیصد ادا کرنا پڑے گا جبکہ باقی 60 فیصد بل حکومت ادا کرے گی۔

انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج اب بھی مفت ہے۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ”ہم چاہ رہے ہیں کہ [لوگ] گورنمنٹ ہاسپٹل کی فیسیلیٹیز[ سہولیات] استعمال کریں بجائے پرائیویٹ [اسپتالوں] کے، ظاہر ہے اگر پھر بھی کوئی پرائیویٹ میں جانا چاہتا ہے اپنی مرضی سے تو پھر تو اس کو پے تھوڑا کرنا پڑے گا جس کو ہم کو پیمنٹ سسٹم [ مشترکہ ادائیگی کا نظام ] کہتے ہیں۔ “

ہیلتھ کارڈزکے زریعے فی خاندان 10 لاکھ روپے سالانہ کی یونیورسل کوریج فراہم کی جاتی ہے۔

صوبائی وزیر صحت کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب کی نگراں حکومت نے مزید فیصلہ کیا ہے کہ یکم جنوری 2024ء سے ہیلتھ انشورنس پروگرام کا اطلاق صرف انہی اسپتالوں میں ہو گا جو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن سے منظورشدہ ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”31 دسمبر تک ہم نے ریلیکس کر دیا ہے تاکہ [ہسپتال] اپنے آپ کو اپرووڈ کروائیں ۔“

اس کے علاوہ ہیلتھ کوریج فراہم کرنے والی حکومتی کمپنی، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے علاقائی سربراہ ڈاکٹر نورالحق نے بھی ہیلتھ کارڈ سروس کے معطل کئے جانے کے تمام دعووں کو غلط قرار دیا ہے۔

نجی چینل کے ساتھ اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کی جانب سے 14 نومبر کا جاری کردہ ایک خط شیئر کیا گیا، جس میں کمپنی نے صوبے کے تمام نجی اسپتالوں کو آگاہ کیا ہے کہ صحت سہولت پروگرام کے ”مالی استحکام“ کی وجہ سے فہرست میں شامل نجی ہسپتالوں کو 15 نومبر سے 40 فیصدکا مشترکہ ادائیگی کا نظام لازمی طور پر نافذ کرنا ہوگا۔

نجی چینل نے لاہور کے تین سرکاری اسپتالوں- سروسز ہسپتال، جنرل ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال سے بھی رابطہ کیا۔ان تمام اسپتالوں کے عملے نے تصدیق کی کہ صحت کارڈ چل رہا ہے۔

اس کے بعد نجی چینل نے لاہور کے چار مختلف نجی اسپتالوں- ڈاکٹرز ہسپتال، حمید لطیف ہسپتال، شریف میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، ایور کیئر ہسپتال اورضلع ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی میں سرور فاؤنڈیشن رائے علی نواز ہسپتال کے عملے سے بھی بات کی۔ ان تمام کا بھی یہی کہنا تھا کہ صحت کارڈ چل رہا ہے، لیکن اب مریضوں کو اپنے اخراجات کا 40 فیصد خودادا کرنا ہوگا۔

یہاں ہیلتھ انشورنس پروگرام کے پینل پر موجود اسپتالوں کی فہرست ہے جہاں صحت کارڈ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button