آج کے کالمسہیل بشیر منج

میرا کسان ڈیفالٹ کر گیا

سہیل بشیر منج

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، زراعت پاکستان کی مستحکم معیشت کی ضمانت ہے، زراعت یہ ہے، زراعت وہ ہے، ایسا بچپن سے مطالعہ پاکستان میں پڑھتے اور پی ٹی وی سے سنتے آ رہے ہیں بلا شبہ بہت سے ممالک نے اپنے ایگریکلچر سیکٹر پر توجہ دے کر ترقی کی ہے ۔گزشتہ تین سالوں سے جو زراعت کا حال پاکستان میں ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا، یہ کیسا زرعی ملک ہے، جس میں گندم روس سے، لہسن ادرک چائنہ سے، آ لو پیاز ٹماٹر ایران سے اور فروٹ بھی باہر کے ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ۔گزشتہ سال جب گرین پاکستان زرعی انقلاب کا سنا تو دل بہت خوش ہوا ایک امید پیدا ہوئی کہ بہت جلد پاکستان زرعی مشکلات سے نکل جائے گا سبزیاں گندم چاول فروٹ لہسن پیاز اور دوسری اجناس میں پاکستان خود کفیل ہو جائے گا میرے ملک کی گندم میرے دیس کے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہو جائے گی لیکن معذرت کے ساتھ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔
جس طرح ایک مہم چلا کر کسانوں کو 8500 روپے فی من کاٹن کی خریدداری کی گارنٹی دے کر حکومت نے کاٹن کاشت کروائی تھی جس پر زمیندار نے حکومت کی مقرر کردہ قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زمین پر محنت اور خرچہ کیا تھا اس کا حساب ملاحظہ فرمائیے ٹھیکہ زمین پچاس ہزار اوسط، زمین کی تیاری آٹھ ہزار، کھاد کا خرچہ بیس ہزار، پانی بارہ ہزار ،سپرے اٹھارہ ہزار،جنرل خرچہ چار ہزار فی ایکڑ رہا کل ملا کر فی ایکڑ اخراجات ایک لاکھ بارہ ہزار روپے پیداوار فی ایکڑ بیس من اور قیمت 45 سو روپے فی من رہی یعنی کل آمدن نوے ہزار فی ایکڑ نقصان با ئیس ہزار، اب جس کسان نے 20 ایکڑ کپاس کاشت کی تھی چھ ماہ کی محنت کے بعد اسے چار لاکھ چالیس ہزار کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ آپ خود ہی سوچیں کہ ایک بیس ایکڑ کے چھوٹے زمیندار کو حکومتی خریدداری کی گارنٹی پر ایک فصل سے چار پانچ لاکھ کا نقصان ہو گیا تو دوبارہ کاٹن جائے بھاڑ میں وہ کبھی کاٹن کاشت کی طرف نہیں جائے گا۔ اگلی فصل مکئی کی رہی جس میں اخراجات کچھ یوں رہے زمین ٹھیکہ پچاس ہزار ،بیچ پندرہ ہزار، زمین کی تیاری آٹھ ہزار ،کھاد یوریا ڈی اے پی چالیس ہزار، سپرے45 سو ، لیبر آٹھ ہزار، پانی بارہ ہزار، کل ملا کر فی ایکڑ اخراجات ایک لاکھ بیس ہزار روپے پیداوار فی ایکڑ ساٹھ من اور قیمت بارہ سو روپے فی من یعنی اخراجات ایک لاکھ بیس ہزار اور آمدن سا ٹھ ہزار۔
کماد کی فصل کے حالات بھی کوئی مختلف نہیں رہے کل اخراجات ایک لاکھ نوے ہزار فی ایکڑ پیداوار چھ سو من اور قیمت چار سو پچیس روپے فی من کل آمدن دو لاکھ پچاس ہزار۔ آ پ ہی بتائیں کہ کسان کہاں جائے ابھی گندم کی کاشت کا موسم ہے اس وقت مارکیٹ میں یوریا اور ڈی اے پی مافیا کے رحم و کرم پر ہے وہ من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں بلیک مارکیٹ میں یوریاپانچ ہزار اور ڈی اے پی پندرہ ہزار روپے فی بیگ مل رہی ہے حکومت کی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ۔
جناب وزیراعلیٰ ہوش کے ناخن لیں مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کریں کسانوں کو کھاد مہیا کریں اتنی سخت کارروائیاں کریں جتنی گندم کی خریداری کے وقت کسانوں کے خلاف کی گئی تھیں حیرت کی بات ہے کہ اگر حکومت گندم کی خریداری کے وقت کسانوں کے سر پر تلوار لٹکا کر خریداری کرتی ہے تو مکئی، گنا اور کپاس بھی خریدا کرے اور خود ان مافیاز کا مقابلہ کرکے انہیں طے شدہ قیمتوں پر فروخت کرے۔ جناب وزیراعلیٰ آپ کا کسان فاقوں تک پہنچ گیا ہے شوگر مل مافیا نے کرشنگ میں ایک ماہ تاخیر کر دی ہے تاکہ گندم کی بوائی کا وقت کسانوں کے ہاتھ سے نکل جائے اور وہ مجبوراً دوبارہ گنا ہی کاشت کریں اور اگلے سال پھر ان کے شکنجے میں آ جائیں میں پالیسی میکرز، زرعی ماہرین ،حکومتی مشینری کے ساتھ انتظامیہ کے تمام عہدے داران سے اپیل کرتا ہوں کہ میرا کسان اور پنجاب بربادی کے دہانے پر ہے، اسے بچانے کے لئے ٹھوس فوری اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے، گزرتا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے۔ برائے کرم مافیاز کو لگام ڈالیں اگرآ پ کی کوئی مجبوری ہے تو بلا خوف و خطر آ رمی چیف سے مدد مانگ لیں جس طرح انہوں نے ڈالر مافیا کو لگام ڈالی تھی ان سے یہ بھی گزارش کر لیں کہ ایک پھیرا کھاد اور کماد مافیا پر بھی ہو جائے کس طرح آ پ اپنے آ پ کو ہندوستان کی زراعت کے برابر کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہاں کسانوں کے لئے ٹیوب ویل کے لئے مفت بجلی سبسڈی والی کھادیں بیج اور پیسٹی سائیڈز آ سانی سے ملتی ہیں اور فصل آ نے پر مافیاز کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جاتا ہے ۔
جناب وزیراعلیٰ جس طرح مہنگی بجلی ،گیس اور ٹیکسوں کی بہتات کی وجہ سے بہت سے صنعت کار پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے ہیں یقیناً سرمایہ دار کے پاس بہت سی آپشن موجود ہوتی ہیں لیکن میرے کسان کے پاس کچھ نہیں وہ اپنی زمین کو اٹھا کر بنگلہ دیش، افغانستان یا ایران نہیں لے جا سکتا آجا کر اس کی نظریں آپ پر ہی ہیں اگر آ پ کچھ نہیں کر سکتے تو پھر ایک مہربانی کریں میرے کسانوں سے ساری زمین حکومتی قبضہ میں لے کر سرمایہ داروں کے حوالے کر دیں وہ یہاں پر کارپوریٹ فارمنگ کریں آ پ بھی خوش سرمایہ دار بھی خوش غریب کسان کا کیا ہے فاقوں تک وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہے موت تک پہنچانے کے لئے تھوڑی سی مدد کر دیں اس کا کام آ سان ہو جائے گا اگر آ پ یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر آ ج ہی سے کمر کس لیں اور پاکستان کی ڈوبتی ہوئی زراعت اور پریشانی سے مرتے ہوئے کسان کو آخری سہارا دے دیں میرا کسان ڈیفالٹ کر رہا ہے یہ یاد رکھیں کہ اگر کسان زراعت اور میرا پنجاب ڈیفالٹ کر گئے تو آپ کے پاس حکومت کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔

جواب دیں

Back to top button