جے چندی گڑھ ٹیہہ جااو

شرافت علی عامر
چند دن قبل میڈیا پر ایک خبر گردش میں تھی کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک مراسلہ تحریر کیا ہے جس میں سپریم کورٹ میں بینچوں کی تشکیل سمیت تین نکات کے بارے بات کی گئی تھی، آج اس خبر کی پیش رفت اس صورت سامنے آئی کہ اس ضمن میں ایک نئی خبر پڑھنے کو ملی جس میں بتایا گیا ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان نے معزز جج کے مذکورہ مراسلے کا تحریری جواب دیا ہے۔ جواب کا متن بھی معاصر اخبارات کی ویب سائٹس پر تازہ ترین کے عنوان کے تحت شائع ہونے والی خبروں میں دیا گیا جس کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس نے ’’من و تو‘‘ کے پیرائے میں اس خط کا جواب تحریر فرمایا ہے، لیکن یہ من و تو ہر گز حضرت امیر خسرو والا ’’من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی، تا کس نا گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری ‘‘والا نہیں تھا بلکہ یہ ’’ من و تو‘‘ من دیگرم تو دیگری والا نظر آیا ۔ خط کا جواب جس پیرائے میں دیا گیا اس میں سسٹم یا نظام پہ تو بات مفقود تھی لیکن ذات پہ بہر حال بات موقوف نظر آئی۔ بچپن میں دادی جان کہا کرتی تھی کہ بیٹا بھاگاں والا گھر ڈیوڑھی سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ اس خط کا جواب پڑھتے پڑھتے ایک دم سے دادی جان کی یہ بات ذہن میں آ گئی کہ کہیں اس وقت بھی کسی ڈیوڑھی کا منظر ہی میرے سامنےتو نہیں، کہیں میں بھی کسی بھاگاں والے گھر کی ڈیوڑھی کا منظر تو نہیں دیکھ رہا جس کے دیکھنے کے بعد مجھے سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی کہ گھر کے حالات کیا ہے؟ ذاتیات پر مبنی معاملات ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن کچھ جگہ ایسی بھی ہوتی ہیں جہاں کی وضعداری اور حیثیت کا تقاضا اس کے برعکس ہوتا ہے۔پرانے زمانوں کی عمارتیں بہت بلند و بالا اور پر شکوہ ہوتی تھیں۔ ان عمارتوں کے پرشکوہ ہونے اور کچھ اداروں کے بارعب ہونے کا مظہر ان کی وضعداری ہوتی ہے۔ آج تک ایسی وضعداری دیکھنے میں نہیں آئی جہاں کل کی جگہ ذات موضوع بحث ہو اور وضعداری بھی برقرار رہی ہو۔
پرانے زمانے کی وہ عمارتیں فلک بوس، بلند و بالا ہوتی تھیں جن کی دیواریں مضبوط اور اونچی اونچی، چھتیں کافی اونچائی پراور صحن، ورانڈے ،راہداریاں کشادہ کھلی ہوا دار مگر ایسی کہ جن کی اندر کی ہوا اندر ہی رہتی، اسی وجہ سے وہ عمارتیں بارعب اور پر شکوہ نظر آتیں، ان عمارتوں کی ہیب ناکی اپنے اندر ایک خوف احترام یا حد فاصل کا تاثر لئے ہوتی مگر آج کل اکہری اینٹ کی چنی ہوئی کوتاہ قامت دیواروں اور نیچی چھتوں تنگ راہداریوں بغیر صحن کے یہ عمارتیں اپنا وہ رعب وہ شکوہ کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں جن کی وجہ سے ان عمارات کی معاشرے میں ایک اثر انگیزی بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بھارتی پنجاب کی ایک فلم جٹ اینڈ جولیٹ میں جسوندر بھلہ ایک ڈائیلاگ بولتا ہے کہ ’’او جے چنڈی گڑھ ٹیہہ جااو، تے پنڈاں ورگا تے رہ جا او، جے پنڈ ای ٹیہہ جاواو تے پچھے کیہ رہ جاواو‘‘ یعنی اگر چندری گڑھ برباد ہو جائے گا تو پھر بھی ایک دیہات جیسا تو رہ ہی جائے گا یعنی اس میں زندگی کے آثار تو باقی رہ جائیں گے اور اگر پنڈ ہی ختم ہو جائے گا تو پیچھے کیا رہےگا۔ بات ایک خط سے شروع ہوئی تھی اور خط کے جواب سے ہوتی ہوئی اپنے آپ کو لاجواب محسوس کرنے پر ختم ہو رہی ہے کہ اگر پنڈ ای ٹیہہ جااو تے پچھے کیہہ رہ جااو۔ اس لئے پنڈ کو ختم نہیں ہونا چاہئے بلکہ پنڈ سلامت رہنا چاہئے کیونکہ جیسی تیسی بھی ہے اسی پنڈ سے زندگی رواں دواں ہے۔