آج کے کالممرادعلی شاہدؔ

آستانہ ادب کاسجادہ نشین

مراد علی شاہد

ادب کیا ہے؟ادب عربی زبان کا لفظ ہے اور مختلف النوع معنی و مفہوم کا حامل ہے۔ظہورِ اسلام سے قبل کی اگر بات کی جائے تو عربی زبان میں ضیافت اور مہمان نوازی کے معنوں میں بھی مستعمل رہا ہے۔ عرب میں کہاوت ہے کہ اگر کسی کا ادب دیکھنا ہو تو اس کا دسترخوان دیکھ لیں۔تاہم مجموعی لحاظ سے شائستگی،خوش بیانی اور نرمی کو اعلیٰ ادب کا معیار اولیٰ خیال کیا جاتا ہے۔میتھو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے جبکہ نارمن جودک کہتا ہے کہ ادب سے مراد وہ تمام سرمایہ خیالات واحساسات جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہو۔
لیکن اس میں کوئی مبالغہ و خوش فہمی نہیں کہ ادب کو زندہ رکھنے میں کتاب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ادب بنا کتاب ایسے ہی ہے جیسے بغیر دم جسم،بنا رنگ قوسِ قزح اور صحرا بنا آب۔سوال یہ ہے کہ کس کتاب کو کہا جائے کہ یہ ادب کے اعلیٰ معیار پر قائم ہے اور اس میں وہ تما م محاسن وشمائل موجود ہیں جو ایک معیاری کتاب میں ہونا چاہئے۔تو میرے نزدیک ایک ایسی کتاب جس میں چاشنی، شائستگی، سرمایہ احساسات وخیالات اور فلسفہ حیات موجود ہو کسی طور ایک مقبول کتاب سے کم نہیں ہو سکتی۔ایسی کتابیں بے راہرو افراد کے لئے حیات جاوداں بخشنے کا سبب بنتی ہیں۔اگر فارسی ادب کی بات کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ کل پانچ کتب ایسی ہیں جنہیں زبان و ادب کے سر کا مکٹ کہا جا سکتا ہے۔جو ہر دور میں اہل ادب کے دلوں کی دھڑکن رہی ہیں۔ انہیں آج تک بے مثل مقبولیت اورعوام کی طرف سے سند قبولیت عطا ہوا ہے۔جن کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ
شاہنامہ فردوسی،مثنوی مولانا روم،دیوانِ حافظ شیراز،عمر خیام کی رباعیات،اور سعدی کی گلستان۔ اگر مذکور تمام کتب کا بنظر عمیق مطالعہ کریں تو علم وآگہی کے جو در وا ہوتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ شاہنامہ فردوسی میں رزم و بزم کے واقعات، مثنوی مولانا روم میں تصوف کے اسرار ورموز کا بحرِ بیکراں،حافظ کے دیوان میں عشق ومحبت اور شدید جذباتی موضوعات کا اثریہ بیان ایسا ہے کہ قاری اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا،عمر خیام کی رباعیات سادہ سہل ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک خاص فلسفہ لئے ہوئے ہیں۔جبکہ سعدی کی گلستان ان تمام میں ایسی کتاب ہے جو سادہ و عام انداز میں ایسی حکایات پر مبنی ہے جو براہ راست عوام کی حیات وانداز پر مشتمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ دقیق، فلسفیانہ، عمیق انداز نہ ہوتے ہوئے بھی گلستان نے اپنا مقام وسکہ کیوں کر بنائے رکھا تو سادہ سا جواب یہ ہے کہ گلستان میں پیش کردہ تما م حکایات کا براہِ راست تعلق عوام کے ساتھ ہے۔گویا ایسا ادب جو عوام کی ترجمانی کرے،ادب کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوتا ہے۔اگر ہم نسل نو میں کتب بینی اور کتاب سے عشق کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس شوق ِ کتب بینی میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔اس کی وجہ ہم سب جانتے ہیں کہ جو نوجوان نسل سن2000 میں پیدا ہوئی یہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے بڑھی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ،موبائل،چینلز کی بھرمار،سوشل میڈیا ان کی دسترس میں ایسا رہا کہ میڈیا نے انہیں اپنی دسترس میں شامل لے لیا۔یعنی اس نسل کی پرورش بزرگوں نے نہیں سوشل میڈیا نے کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل میں عدم برداشت،غصہ، بے صبر ی اور نفسیاتی مسائل قدرے زیادہ ہیں۔ایسے میں اگر کوئی ان نوجوانوں کو کتب بینی کی طرف لے آتا ہے تو یقیناً وہ شخص اسلاف کی روایات کا امین اور پاسدار کہلانے کا مستحق ہے۔
سجاد امین تلمبوی ایسے فرد فکر،چمنِ کتب کے گلاب و گلچیں،ادب کے پہریدار،کتاب دوست بلکہ کتاب سے عشق رکھنے والے ہیں کہ انہیں دو صورتوں میں قرار میسر آتا ہے۔ایک کتاب خود پڑھنا اور اچھی کتاب پڑھنا اور دوسرا ادب دوست احباب کو کتاب کلچر کے فروغ کی ترغیب وتلقین۔ چونکہ وہ خود کتب بینی کے رسیا ہیں (میبل اور میں والی بات ہرگز نہیں)اس لئے ان کی حیات کا مشنِ اولین ہے کہ ہر گھر میں ہر فرد کے ہاتھ میں معیاری کتاب ہو۔اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کتاب دماغ رو شن کرتی ہے اور روح کی غذا ہے۔اور انسان کے زندہ رہنے کے لئے روشنی وغذا جزولاینفک ہیں اور کتاب ذریعہ توانائی،کتابیں ہماری تاریخ کی امین بھی ہیں۔
سجاد امین تلمبوی کا خیال ہے کہ یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہرگز نہیں ہو سکتی جس کا عملی ثبوت وہ اپنے اس عمل سے پیش کرتے ہیں کہ ہر اچھی کتاب بلکہ کتب کہوں تو مبالغہ آرائی نہ ہوگی،دوست احباب کو مثلِ حاتم طائی ہدیہ ایسے کرتے ہیں جیسے ساون میں بارش برستی ہو۔ہدیہ کتب اور کتاب سے عشق انہیں تاابد حیات ِ جاوداں بخشنے کا باعث بنے گا۔ ایک ملاقات میں ان سے پوچھا کہ نفسا نفسی اور معاشی ابتری کے عہد رواں میں آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں کہ دسترخوانِ کتب پہ دعوتِ شیراز کا گماں ہوتا ہے،تو درویشانہ بے اعتنائی و لاتعلقی سے کہنے لگے کہ مجھے دلی طمانیت وسکون ملتا ہے۔سجاد امین گنجینہ ادب اور چمنستانِ کتب پر مارِضحاک بن کر براجمان نہیں بلکہ فریدون کی مثل ڈیجیٹل گیجٹ کو تحائفِ کتب سے قتل کرنے کا فن جانتے ہیں کہ نوجوان نسل نئی دنیا میں دائیں ہاتھ میں کتاب تو بائیں ہاتھ میں موبائل کے ساتھ داخل ہو تو میں سمجھوں گا میں نے حق انسانیت ادا کردیا اور اپنی نسل کو نفسیاتی مسائل سے بچانے میں اپنا کردار ادا کردیا۔کتب بینی کے فروغ میں سجاد امین ایسا کام کر رہے ہیں کہ اگر انہیں نہ کیا جائے تو سسی، ہیر، ہانی، عذرا،لیلیٰ اور صاحباں سینہ بہ سینہ کہیں کہانیوں میں قصہ پارینہ بن کر ہوا ہو جائیں گی اگر ایسے میں کوئی نام زندہ رہے گا تو عشاق کتب اور سجادامین جیسے فیاض وفراخ کا جنہیں میں آستانہ ادب کا سجادہ نشین کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا۔کاش ہرپاکستانی سجاد ہو۔

جواب دیں

Back to top button