سویلین کا ملٹری ٹرائل، سپریم کورٹ کا فیصلہ مشروط معطل

سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینےکا اپنا فیصلہ مشروط معطل کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے کہاہے کہ فوجی عدالتیں ملزمان کا ٹرائل کرسکتی ہیں تاہم حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے احکامات سے مشروط ہوگا۔انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلے تک 102گرفتار افراد کےٹرائل کاحتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ عدالت نے پانچ ایک کے تناسب سے سنایا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔اِس کیس میں وزارت دفاع کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ہر سویلین کا نہیں صرف ان کا فوجی ٹرائل ہوگا جو قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیںجبکہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ شاید متعدد بری ہوجائیں۔ وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت جنوری2024 کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔ قریباً دو ماہ قبل ہی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائلز کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دیاتھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے ایک، چار سے اکثریتی فیصلہ سنایاجبکہ جسٹس یحییٰ نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی تھی۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق اگر کسی سویلین کا فوجی ٹرائل ہوا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے، عام شہریوں کے تمام کیسز سویلین عدالتوں میں بھیجے جائیں، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2ڈی ون آئین سے متصادم ہے۔تب جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے تھے کہ فیصلے کا اطلاق 9اور10مئی کے واقعات میں زیر حراست تمام افراد پر ہو گا، بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا، عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے گاجبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھا کہ آرمی ایکٹ تو فورسز کے اندرکے لئے ہوتا ہے، اس کا سویلین سے تعلق کیسے دکھائیں گے۔ سپریم کورٹ نے سویلین کے ٹرائل کا فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سو سائٹی کی جانب سے دائر درخواستوں پر دیا تھا اور تب بھی آئینی و قانونی ماہرین کی اِس فیصلے پر ملی جلی رائے سامنے آئی تھی بہرکیف اِس کے بعد تازہ پیش رفت میں سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینےکا اپنا فیصلہ مشروط معطل کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔نو مئی کا افسوس ناک واقعہ اتحادی حکومت کے دور میں ہوا اور اتحادی حکومت نے اِس واقعے کی شدید مذمت کرتےہوئے ملوث افراد کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں کرنا لازم جانا اور بھرپور حمایت کی اور خواجہ آصف نے بطور وزیر دفاع یہاں تک کہا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کے لئے کوئی نیا قانون نہیں بنایا جارہا، پوری دنیا میں فوجی تنصیبات پر حملے کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلتے ہیں۔ لہٰذا کوئی نیا قانون نہیں بنایا بلکہ یہ قانون پہلے سے موجود ہے، جہاں دہشت گردی ہوگی وہاں دہشت گردی قانون کے تحت کیس چلے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ سب ناقابل یقیں تھا لہٰذا پوری قوم کے لئے ناقابل قبول بھی ہے، لیکن اِس تماشے نے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی سیاسی تربیت اور ہیجان کو بے نقاب کرکے پوری قوم کو اقوام عالم کے سامنے شرمندہ کیا ، مگر بدقسمتی سے اداروں پر حملہ آور ہونے کی روش یہ نئی نہیں ہے، نو مئی کو لوگ اُس ادارے کی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے ہیں جس کے شانہ بشانہ پچھلے 75 سال سے ہر داخلی و خارجی چیلنج کا مقابلہ کرتے آئے ہیں،اِس لئے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ایسا واقعہ ہوسکتا ہے۔ فوجی عدالتوں کا معاملہ سینیٹ میں بھی زیر بحث آیا اور بہت لے دے ہوئی۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ آزادعدلیہ اِس معاملے پر جو بھی فیصلہ دے، وہ سبھی کے لئے قابل قبول ہونا چاہیے، کیونکہ فیصلوں کو متنازعہ بنانے سے اِن کی افادیت اور عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد کم ہوجاتا ہے۔